ہم اپنے گزشتہ پرچے میں بوضاحت بیان کر چکے ہیں کہ وفات مسیح کے عقیدہ کی بنیاد حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کا الہام نہیں بلکہ اس کی بنیاد قرآن مجید اور حدیث رسول کریمﷺ پر رکھی گئی ہے۔ چنانچہ ہم اپنے گزشتہ پرچے میں آپ کی کتاب (حمامتہ البشریٰ ص۲۸) کا ایک عربی حوالہ پیش کر چکے ہیں۔ یہاں حضرت مرزاصاحب کا اپنا کیا ہوا اردو ترجمہ پیش کیا جاتا ہے۔ ’’میں نے یہ کہا ہے اور اب بھی کہتا ہوں کہ عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام یقینا فوت ہوگیا ہے۔ جیسا کہ قران عظیم اور رسول کریمﷺ نے خبر دی ہے۔ پس ہم خدا اور رسول کی بات میں کس طرح شک کریں اور ان کی باتوں پر اور باتوں کو ترجیح دیں اور میرے اور مخالفوں کے درمیان قرآن ہی فیصلہ کن ہے۔‘‘
فریق مخالف نے تعریض کی تھی کہ مرزاقادیانی باون سال تک حیات مسیح کے قائل رہے۔ اس کے جواب میں ہم نے کہا تھا اور اب پھر دہراتے ہیں کہ ایسی بے محل باتیں مفید نہیں ہوا کرتیں۔ اﷲتعالیٰ کے مامور خدائی اشاروں کے تابع ہوتے ہیں۔ جب تک اﷲتعالیٰ نے مرزاقادیانی پر قرآن مجید اور حدیث نبویؐ کے اسرارنہ کھولے۔ آپ نے عام مسلمانوں کی مخالفت کو پسند نہیں کیا۔ جیسا کہ حضرت رسول کریمﷺ بھی ابتدائی ساڑھے پندرہ سال تک بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھتے رہے۔ کیونکہ: ’’کان یحب موافقۃ اہل الکتاب فیما لم یؤمربہ‘‘ (مسلم ج۲ ص۲۹۶)
یعنی جس بارے میں آنحضرتﷺ کو اﷲتعالیٰ کی طرف سے کوئی حکم نہیں دیا جاتا تھا۔ اس میں اہل کتاب کی موافقت کو پسند فرماتے تھے۔ اسی طرح حضرت مرزاصاحب نے بھی تفہیم الٰہی سے پہلے پہلے عام مسلمانوں کے عقیدے کی مخالفت نہیں فرمائی۔ یہ درست ہے کہ ’’فلما توفیتنی‘‘ والا واقعہ قیامت کو پیش آئے گا۔ مگر یہ بھی تو سوچئے کہ واقعہ کیا ہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کہتے ہیں کہ میری قوم میری وفات کے بعد بگڑی ہے۔ بعینہ یہی واقعہ بخاری شریف میں خود رسول مقبولﷺ نے اپنے متعلق بھی بیان فرمایا ہے جو ہم پہلے لکھ چکے ہیں۔
اس کا یہ جواب دینا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے یہ نہیں کہا کہ مجھے اپنی قوم کے بگڑنے کا پتہ نہیں بلکہ پاس ادب کے خیال سے خاموشی اختیار کی ہے۔ بالکل غلط ہے۔ کیونکہ سورۂ مائدہ کے آخری رکوع میں جہاں یہ تذکرہ ہوا ہے۔ اﷲتعالیٰ نے صرف اتنی بات پوچھی تھی کہ کیا تم نے ان لوگوں سے کہا تھا کہ مجھ کو اور میری ماں کو خدا بنالو؟ اس کے جواب میں پاس ادب کا تقاضا تو یہ تھا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام خاموش رہتے اور دوسرے رسولوں کی طرح ’’لا علم لنا‘‘ کہہ دیتے۔ مگر ان کا جواب تو اتنا لمبا ہے کہ سارا رکوع بھرا ہوا ہے۔