وہی شخص ترپن سال میں نبی بن گیا۔ یا للعجب! کوئی ہے جو یہ عقدہ حل کرے۔ اے اﷲ تو ان بھائیوں کو عقل سلیم دے۔ ہدایت تیرے قبضے میں ہے۔ میرے قبضے میں نہیں، میرا کام ہے قرآن سے، حدیث سے، مرزاقادیانی کے قول سے، عیسیٰ علیہ السلام کو زندہ ثابت کر دینا۔ سو اسے میں کر چکا۔ اب سمجھنا نہ سمجھنا مولوی سلیم اور ان کی جماعت کا کام ہے۔
’’من یہدہ اﷲ فلا مضل لہ ومن یضللہ فلا ہادی لہ‘‘ ہاں آپ ’’ہو الذی ارسل رسولہ‘‘ والی آیت کا ہی کم ازکم جواب دے دیں۔ شاہ ولی اﷲ کے ترجمہ کے بعد اور کسی ترجمہ کی ضرورت نہیں۔ کیونکہ وہ تمہارے اور ہمارے دونوں کے مسلم الثبوت بزرگ ہیں۔ مرزاقادیانی نے ان کو تمام محدثین کا سردار مانا ہے۔ (ازالہ اوہام ص۱۵۵، خزائن ج۳ ص۱۷۹، کتاب البریہ ص۷۳،۷۴، خزائن ج۱۳ ص۹۰تا۹۲) میں ان کو آسمانی نشان مانا ہے۔ آج میں نے آپ کے سامنے قرآن رکھ دیا جو شاہ صاحب ہی کا ترجمہ ہے۔ پس اسی کو پڑھ کر فیصلہ کر لو۔ ان عربی کی عبارتوں کو چھوڑ دو۔ اس لئے کہ اس کو یادگیر والے نہیں سمجھ سکیں گے۔ دوسری بات یہ ہے کہ حضرت شاہ ولی اﷲ اور مرزاقادیانی دونوں ہی ہندوستان کے ہیں۔ قاعدہ ہے کہ جب کسی بات پر دوفریق میں جھگڑا ہوتا ہے تو حکم وہ شخص بنتا ہے جو دونوں کا مسلم ہو۔ لہٰذا شاہ ولی اﷲ صاحبؒ دونوں کے مسلم الثبوت بزرگ ہیں۔ سب بات کو چھوڑ کر اگر آپ میرے صرف اسی چیلنج کو بھی قبول کر لیں گے تو معاملہ کا فیصلہ ہو جائے گا۔ یہ بے چارے بھولے بھالے بھائی جو قرآن نہیں جانتے۔ حدیث نہیں جانتے۔ لیکن اردو فارسی ضرور جانتے ہیں۔ وہ لوگ شاہ صاحب کے ترجمہ سے بہت آسانی سے سمجھ لیں گے کہ عیسیٰ علیہ السلام زندہ ہیں یا مردہ۔ اگر شاہ ولی اﷲ صاحب نے غلط ترجمہ کیا تو جو شخص قران کا ترجمہ بھی نہیں جانتا بخیال تمہارے، پھر اس کو مرزاقادیانی نے رئیس المحدثین کا عظیم الشان خطاب اور آسمانی نشان کا زبردست سرٹیفکیٹ کس طرح دے دیا۔
اے اﷲ تو میرے بھائی مولانا سلیم کو عقل سلیم دے۔ آمین اور اسی کے ساتھ ساتھ تمام حضرات کو صراط مستقیم پر قائم رکھ جو بھائی عیسیٰ کی موت کی غلط فہمی میں مبتلا ہو گئے ہیں۔ ان کو صحیح راستہ، حق راستہ آنحضرتﷺ کا راستہ چودہ سوسال کا متفقہ راستہ، مرزاقادیانی کا باون سال تک کا اختیار کردہ راستہ دکھلا دے۔ ’’ربنا تقبل منا انک انت السمیع العلیم‘‘
(شرح دستخط) احقر محمد اسماعیل عفی عنہ
مناظر اہل سنت والجماعت یادگیر
مورخہ ۲۳؍نومبر ۱۹۶۳ء