بست ویکم… آنحضرتﷺ نے اپنے روحانی معراج میں جس طرح اور نبیوں کو آسمان پر موجود پایا۔ اسی طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے بھی ملاقات فرمائی۔ اب یا تو تمام نبیوں کو آسمان پر زندہ مانا جائے اور یا ان کی طرح وفات یافتہ تسلیم کیا جائے۔ اس کے سوا چارہ نہیں۔ (بخاری ج۱ ص۴۷۱)
بست ودوم… بخاری شریف میں مسیح ناصری علیہ السلام اور آنے والے مسیح کے دو الگ الگ حلییٔ بیان کئے گئے ہیں۔ چنانچہ فرمایا: ’’واما عیسیٰ فاحمر جعد‘‘ یعنی عیسیٰ کا رنگ سرخ اور بال گھنگھریالے تھے اور آنے والے مسیح کے متعلق فرمایا: ’’فاذا رجل اٰدم… تضرب لمتہ بین منکبیہ رجل الشعر‘‘ یعنی اس کا رنگ گندمی ہوگا اور بال سیدھے جو کندھوں پر پڑیں گے۔ دنیا میں دو شخصوں کا نام تو ایک ہو سکتا ہے۔ مگر ایک آدمی کے دو حلئے نہیں ہوسکتے۔ پس یہ اختلاف حلّیتین دلیل ہے۔ اس بات کی کہ جانے والا مسیح اور تھا جو وفات پاگیا اور آنے والا مسیح اور ہے جو عین وقت پر ظاہر ہوگیا۔ (بخاری ج۲ ص۱۵۸ مصری)
اب ہم مدمقابل کے پرچے کا جواب لکھتے ہیں۔ آپ نے پوچھا ہے کہ یہ حیات عیسیٰ علیہ السلام کا عقیدہ کفر ہے؟ تعجب ہے کہ آپ بحث کرنے آئے ہیں۔ حیات وممات مسیح ناصری علیہ السلام کی اور پوچھ رہے ہیں فتویٰ۔
جب تک کسی کو وفات مسیح علیہ السلام کا علم نہ ہو وہ معذور ہے۔ لیکن مسئلہ واضح ہو جانے کے بعد اپنی رائے پر اصرار کرنا قرآن وحدیث کے خلاف ہے۔ اس کی مثال بالکل ایسی ہے جس طرح آنحضرتﷺ ایک عرصۂ دراز تک بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نمازیں پڑھتے رہے۔ یعنی قریباً ساڑھے پندرہ سال تک لیکن مسئلہ واضح ہو جانے کے بعد اپنی رائے پر اصرار کرنا قرآن وحدیث کے خلاف ہے۔ جب اﷲتعالیٰ نے روک دیا آپ نے بیت اﷲ شریف کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنا ضروری قرار دیا۔ (بخاری ج۱) اسی میں اس اعتراض کا جواب بھی آگیا کہ مرزاقادیانی پہلے حیات مسیح کے قائل تھے۔
آپ نے دعویٰ کیا ہے کہ حیات مسیح پر اجماع ہوا ہے۔ حالانکہ آپ نے اس کا کوئی حوالہ نہیں دیا۔ آپ نے لکھا ہے کہ مرزاقادیانی نے خضر کو زندہ مانا ہے۔ اب اگر آپ میں جرأت ہے تو جس رنگ میں حضرت مرزاقادیانی نے خضر کو زندہ مانا ہے۔ حضرت بانی ٔ سلسلہ احمدیہ نے فرمایا ہے: ’’وما من رسول الا توفی وقد خلت من قبل عیسیٰ الرسل‘‘ (نور الحق ص۵۱)