یوں معلوم ہوا کہ گویا یہ آیت آج ہی اتری ہے اور آپ لڑکھڑا کر زمین پر گر پڑے اور تمام صحابہ کرامؓ دن بھر یہ آیت پڑھ کر اپنے تئیں تسلی دیتے رہے کہ آنحضرتﷺ اسی طرح فوت ہوگئے ہیں۔ جس طرح آپ سے پہلے تمام نبی وفات پاچکے ہیں۔ غرض یہ ایک تاریخی دن تھا۔ جب حضرت ابوبکر صدیقؓ نے ایک تاریخی خطبہ دیا اور تمام نبیوں بشمول حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات پر صحابہ کرامؓ کا تاریخی اجماع ہوا۔ ورنہ اگر صحابہؓ میں سے کسی کو ذرا بھی شک ہوتا تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام زندہ ہیں تو وہ صدیق اکبرؓ کے خطبے پر کبھی مطمئن نہ ہوتے۔ بلکہ ضرور یہ کہتے کہ جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام زندہ ہیں تو پھر ہمارے نبیﷺ کیوں زندہ نہیں رہ سکتے اور صدیق اکبرؓ کا استدلال بھی باطل ہو جاتا۔
نہدہم… ’’اوترقیٰ فی السماء (بنی اسرائیل:۹۳)‘‘ اس آیت سے پتہ چلتا ہے کہ کفار مکہ نے آنحضرتﷺ سے جو معجزات طلب کئے تھے۔ ان میں سے ایک مطالبہ یہ بھی تھا کہ اگر آپ سچے ہیں تو آسمان پر چڑھ جائیں۔ مگر اس کے جواب میں قرآن مجید نے یہی کہا ہے کہ اے نبیؐ! تو کہہ دے: ’’ہل کنت الا بشراً رسولاً (بنی اسرائیل:۹۳)‘‘ میں تو ایک بشر رسول ہوں۔ میں کیونکر آسمان پر جاسکتا ہوں۔ معلوم ہوتا ہے کہ جو لوگ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو بہ جسدہ العنصری آسمان پر زندہ مانتے ہیں وہ درپردہ عیسائیت کے مبلغ ہیں۔ کیونکہ وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو مافوق البشر یعنی خدا کا درجہ دیتے ہیں ؎
مسیح ناصری را تاقیامت زندہ فی فہمند
مگر مدفون یثرب راندانند ایں فضیلت را مقام غور ہے کہ قرآن مجید تو یہ کہے کہ بشر آسمان پر نہیں جاسکتا اور مسلمان مولوی رات دن یہ پروپیگنڈہ کریں کہ وہ آسمان پر بیٹھے ہیں۔ عیسائی بھی تو یہی کہتے ہیں کہ: ’’خداوند یسوع… آسمان پر اٹھایا گیا اور خدا کی دہنی طرف بیٹھ گیا۔‘‘ (مرقس: باب۱۴)
بست… ’’ویوم نحشرہم جمیعاً… فزیلنا بینہم… قال شرکاء ہم ما کنتم ایانا تعبدون (یونس:۲۸)‘‘ اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ قیامت کے دن جب اﷲتعالیٰ مشرکوں کو اور ان کے معبودوں کو اکٹھا کرے گا تو وہ معبود مشرکوں کو صاف صاف یہ کہیں گے کہ وہ کبھی بھی ان کے عبادت گزار نہ تھے۔ اب سوال یہ ہے کہ اگر حضرت عیسیٰ علیہ السلام آسمان پر زندہ ہیں اور وہ دوبارہ دنیا میں آئیں گے تو وہ خود دیکھ لیں گے کہ عیسائی ان کی عبادت کر رہے ہیں۔ پھر وہ قیامت کو یہ کس طرح کہہ سکیں گے کہ عیسائیوں نے انہیں کبھی نہیں پوجا۔