ساتھ ہی آپ نے ترجمہ بھی دیا ہے۔ ’’اور کوئی نبی ایسا نہیں جو فوت نہ ہوا ہو۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے پہلے جو نبی آئے وہ فوت ہوچکے ہیں۔‘‘
آپ نے تحریر کیا ہے کہ مرزاقادیانی نے لکھا ہے کہ میں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھ کئی دفعہ گائے کا گوشت کھایا تھا۔ گویا آپ کے نزدیک اس حوالہ سے ثابت ہے۔ مرزاقادیانی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو زندہ مانتے ہیں۔ حالانکہ آپ نے فرمایا: ’’قدمات عیسیٰ مطرقا ونبینا حی وربی انہ وافانی‘‘ (آئینہ کمالات اسلام ص۵۹۳، خزائن ج۵ ص ایضاً)
یعنی حضرت عیسیٰ علیہ السلام فوت ہوگئے۔ مگر ہمارے نبیﷺ زندہ ہیں اور میں نے کئی دفعہ حضورﷺ سے ملاقات کی ہے تو کیا اس کے معنی یہ ہیں کہ حضرت مرزاصاحب نے حضرت محمد رسول اﷲﷺ کو بھی بجسدہ العنصری زندہ سمجھا ہے؟
آپ نے حضرت بانی سلسلہ احمدیہ حضرت مرزاصاحب کے متعلق یہ دعویٰ کیا ہے کہ انہوں نے عقیدہ وفات مسیح کی بنیاد اپنے الہام پر رکھی ہے۔ حالانکہ یہ بات بالکل غلط ہے۔ آپ فرماتے ہیں: ’’یاد رہے کہ ہمارے اور ہمارے مخالفوں کے صدق وکذب آزمانے کے لئے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات وحیات ہے۔ اگر حضرت عیسیٰ علیہ السلام درحقیقت زندہ ہیں تو ہمارے سب دعوے جھوٹے اور سب دلائل ہیچ ہیں اور اگر وہ درحقیقت قرآن کی رو سے فوت شدہ ہیں تو ہمارے مخالف باطل پر ہیں۔ اب قرآن درمیان میں ہے اس کو سوچو۔‘‘
(تحفہ گولڑویہ ص۱۰۲ حاشیہ)
اسی طرح آپ فرماتے ہیں کہ: ’’انی قلت واقول ان عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام قد توفیٰ کما اخبرنا القرآن العظیم والرسول الکریم فکیف نرتاب فی قول اﷲ ورسولہ وکیف نؤثر علیہ اقوالا الاخریٰ… والقراٰن حکم وعدل بینی وبین المخالفین‘‘ (حمامتہ البشریٰ ص۱۰)
مولوی صاحب! آپ نے بالکل غلط کہا ہے کہ حضرت مرزاصاحب کے نزدیک حضرت مسیح علیہ السلام کی زندگی ہی میں تثلیث کا عقیدہ عیسائیوں میں رائج ہوگیا تھا۔ (کشتی نوح ص۷) اس میںتو صرف اتنا مذکور ہے کہ پولوس جو دراصل حضرت مسیح علیہ السلام کا دشمن تھا۔ اس نے تثلیث کا عقیدہ گھڑا تھا۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ عقیدہ قوم کو بگاڑ نہ سکا۔ البتہ عیسائیوں میں تثلیث کا مسئلہ تیسری صدی کے بعد پیدا ہوا جس پر موحد عیسائیوں اور تثلیث پرست عیسائیوں میں بڑی بڑی بحثیں ہوئیں۔ حوالہ کے لئے دیکھئے (انجام آتھم ص۳۹ حاشیہ)