اور اسی پر جماعت احمدیہ خدا کے فضل سے قائم ہے۔ ظالم ہے وہ شخص جو اس کے برعکس کوئی عقیدہ ہماری طرف منسوب کرتا ہے۔ پس اپنے فیضان اور برکات کے لحاظ سے اگر دنیا میں کوئی آدمی ظاہری طور پر قیامت تک زندہ رکھے جانے کے قابل تھا تو وہ خود حضرت رسول اﷲﷺ تھے۔ مگر ہمارے سادہ مزاج بھائی محض غلط فہمی کی بناء پر اس عظیم الشان نبی کو تو زمین کے نیچے مدینہ شریف میں مدفون سمجھتے ہیں اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو چوتھے آسمان پر بٹھا رکھا ہے۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے ؎
بدنیا گر کسے پائند بودےابو القاسم محمدؐ زندہ بودے
پیارے بھائیو! ہم اپنے پہلے پرچے میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات ثابت کرنے کے لئے قرآن کریم اور حدیث شریف سے سترہ دلائل پیش کر چکے ہیں۔ ان میں سے آخری دلیل کا خلاصہ یہ ہے کہ مذکورہ حدیث نبویؐ کا مفاد یہ ہے کہ جس طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام توفی کے نتیجے میں اپنی قوم سے جدا ہوئے۔ ٹھیک اسی طرح حضرت رسول کریمﷺ بھی توفی ہی کے ذریعہ اپنے صحابہؓ سے جدا ہوئے اور یہ تو سب مانتے ہیں کہ آنحضرتﷺ کی توفی بذریعہ وفات ہوئی۔ لہٰذا ماننا پڑا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی توفی بھی وفات ہی کے ذریعے عمل میں آئی اور وہ فوت ہوکر اپنی قوم کو ہمیشہ کے لئے داغ جدائی دے گئے۔ اسی سلسلے میں اب ہمارے مزید دلائل سنئے۔
ہشتدہم… بخاری میں لکھا ہے کہ جب رسول کریمﷺ فوت ہوگئے تو اس حادثے نے صحابہ کرامؓ کو مارے غم کے دیوانہ کر دیا۔ حتیٰ کہ حضرت عمرؓ نے فرمایا جو شخص یہ کہے گا کہ رسول اﷲﷺ فوت ہوگئے ہیں۔ میں اسے قتل کر دوں گا۔ آخر حضرت ابوبکر صدیقؓ نے ایک تاریخی خطبہ دیا جس میں فرمایا: ’’من کان منکم یعبد محمداًﷺ فان محمداً قدمات (بخاری ج۲ ص۶۴۰)‘‘ یعنی اے مسلمانو! تم حضرت محمد مصطفیٰﷺ کی وفات سے پریشان کیوں ہو۔ آپؐ خدا تو نہیں تھے کہ آپٖؐ وفات نہ پاتے۔ ’’حی وقیوم‘‘ تو صرف اﷲتعالیٰ ہی کی ذات ہے۔ اس کے بعد آپ نے یہ آیت پڑھی۔ ’’وما محمد الا رسول قد خلت من قبلہ الرسل (آل عمران: ۱۴۴)‘‘ یعنی حضرت محمد رسول اﷲﷺ صرف ایک رسول تھے۔ اس لئے آپ کی زندگی کا وہی انجام ناگزیر تھا۔ جو آپ سے پہلے تمام نبیوں کو پیش آیا۔ اس آیت کو سن کر حضرت عمرؓ کو