قرآن کریم انہیں وفات یافتہ قرار دیتا ہے اور قانون قدرت سے بھی ایسا ہی ثابت ہوتا ہے۔
حضرات! کیا آپ میں سے کوئی شخص یہ کہہ سکتا ہے یا دنیا کا کوئی عالم یا سائنسدان اور فلاسفر یہ تسلیم کرنے کے لئے تیار ہے کہ خدا کا یہ قانون کبھی کسی زماے میں تبدیل ہوا یا ہوسکتا ہے کہ ایک شخص جو مثلاً ۱۷۰۰ء میں پیدا ہوا وہ آج بھی تختۂ زمین پر یا آسمان پر جوں کا توں زندہ موجود ہے۔ کیا تاریخ عالم میں سے کوئی مثال ایسی پیش کی جاسکتی ہے کہ کسی شخص نے طبعی عمر سے سینکڑوں سال زیادہ عمر پائی ہو۔
ہمارے مدمقابل حضرات ہی یہ کہتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام گو ایک عام انسان تھے۔ ایک نبی تھے مگر یہ صرف انہی کی خصوصیت ہے کہ دو دوہزار سال سے جسم خاکی کے ساتھ آسمان پر زندہ موجود ہیں اور مزہ یہ کہ بے کھائے پئے اور حوادث زمانہ سے متأثر ہوئے بغیر ’’الی الآن کما کان‘‘ جوں کے توح ۳۳سال کے نوجوان ہیں۔ گویا وہ انسان ہی نہیں بلکہ خدا ہیں۔ سچ ہے ؎
ہمہ عیسائیاں را از مقال خود مدد دادند
دلیری ہا پدید آید پرستا ران ملت را
آج یادگیر کی معزز پبلک گواہ رہے کہ ہم یہ اعلان کرتے ہیں کہ قریباً ایک لاکھ چوبیس ہزار نبیوں میں سے سب سے افضل نبی حضرت محمد مصطفیٰﷺ ہیں۔ جنہوں نے دنیا کو قیامت تک کے لئے ایک بے بدل نظام دیا اور ایسی اعلیٰ درجہ کی تعلیم دی کہ گزشتہ زمانوں کی تمام تعلیمات اس کے سامنے ماند پڑ گئیں۔ اگر کوئی نبی دنیا میں زندہ رہنے کا حق پاسکتا تھا۔ اگر کسی نبی کو دنیا میں دوامی زندگی مل سکتی تھی۔ اگر کوئی عظیم الشان انسان قیامت تک کے لئے زندہ رہ کر دنیا کا محبوب بننے کے قابل تھا تو وہ صرف اور صرف حضرت محمد رسول اﷲﷺ تھے۔
اے یادگیر کی سرزمین! گواہ رہ کہ ہمارا یہ اعلان عام ہے کہ زندہ نبی صرف وہی ہے جس کی شان میں اﷲتعالیٰ نے فرمایا ہے: ’’لولاک لما خلقت الافلاک‘‘ یعنی محمد عربیﷺ اور یہ اس لئے کہ آپ کا فیضان قیامت تک جاری رہے گا۔ حضرت بانی ٔ سلسلہ احمدیہ فرماتے ہیں: ’’خدا نے مجھے بھیجا ہے تاکہ میں اس بات کا ثبوت دوں کہ زندہ کتاب قرآن ہے اور زندہ دین اسلام ہے اور زندہ رسول محمد مصطفیٰﷺ ہے۔ دیکھو! میں زمین اور آسمان کو گواہ کر کے کہتا ہوں کہ یہ باتیں سچ ہیں۔‘‘ (الحکم مورخہ ۳۱؍مئی ۱۹۰۰ء ص۶)