ہونے سے پہلے نبی تھے۔ اب چونکہ حضورﷺ تمام عالم کے نبی، قیامت تک کے نبی آچکے۔ دن ہوگیا رات باقی نہیں رہی۔ لہٰذا ان کی نبوت کی روشنی محمد رسول اﷲ کی روشنی کے سبب اب نہیں آئے گی۔ اب وہ بنی اسرائیل کے لئے روشنی نہیں پھیلا سکیں گے۔
آپ نے ’’قد خلت من قبلہ الرسل‘‘ سے عیسیٰ علیہ السلام کی موت ثابت کی ہے۔ میرے قدیم دوست! اس خلائی دور میں خلائی مسافروں کو دیکھ کر بھی خلائی جہازوں کی موجودگی آپ کا خلت کو نہ سمجھنا یہ بڑی حیرت کی بات ہے۔ ’’خلت خلو خلا‘‘ خلائی جہاز سب کو سمجھ کر جواب دیجئے۔ کیا جو خلائی مسافر خلاء پر چلے جاتے ہیں۔ جب دوبارہ زمین پر آتے ہیں تو بقول آپ کے ان کی خلت یعنی موت ہو جاتی ہے۔ اگر سب خلائی مسافر کو سائنس زندہ رکھتی ہے تو اس پر آپ کو اعتراض نہیں اور عیسیٰ علیہ السلام کو اگر خدا خلا میں لے جاتا ہے تو اس پر آپ کو اعتراض ہے۔ افسوس ہے آپ کی دلیل پر مزید کیا لکھوں۔ یہی جواب آپ کی ’’فیہا تحیون وفیہا تموتون‘‘ کا بھی ہے۔ غور کریں اور یہی جواب ’’ولکم فی الارض مستقر ومتاع الیٰ حین‘‘ کا بھی ہے۔ آپ نے ’’وما جعلنا من قبلک الخلد‘‘ کی آیت سے عیسیٰ علیہ السلام کو مارا ہے۔ پہلے آپ کو معلوم ہونا چاہئے کہ ہم بھی عیسیٰ علیہ السلام کے خلود کے قائل نہیں ہیں۔ ہمارا عقیدہ ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام ضرور مریں گے۔ مگر ابھی نہیں مرے ہیں۔ ’’ومن نعمرہ ننکسہ فی الخلق‘‘ سے شاید آپ نے عیسیٰ علیہ السلام کی آسمانی زندگی کے سبب ان کو بوڑھا بنادیا ہے۔ حالانکہ قرآن نے ان کو ’’من المقربین‘‘ کہا ہے اور قرآن نے فرشتوں کو بھی مقرب کہا تو کیا جبرائیل علیہ السلام بوڑھے ہوچکے؟ کیونکہ وہ تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے بھی بے شمار سال پرانے ہیں۔ خلائی دور میں نوری سال کا حساب ہوتا ہے۔ دنیاوی سال کا نہیں۔
’’الم یجعل الارض کفاتاً‘‘ اس کا جواب بھی خلت کے ضمن میں آگیا ہے۔
’’وما جعلنا ہم جسداً‘‘ سے آپ نے خوراک کی ضرورت سمجھا ہے۔
آپ وکیل ہیں اور خود مرزاقادیانی موکل اور مدعی۔ وہ کہتے ہیں کہ: ’’میں بھی عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھ روٹی اور گائے کا گوشت کھا چکا ہوں۔‘‘ (تذکرہ ص۴۲۷)
قرآن کہتا ہے کہ شہداء کو اﷲ رزق دیتا ہے۔ نبی کا درجہ کم ازکم شہداء سے دوڈگری زیادہ ہے۔ لہٰذا جب شہید روزی کھاتا ہے تو نبی بھی روزی کھاتا ہے۔