’’اموات غیر احیائ‘‘ کی آیت سے عیسیٰ علیہ السلام کی موت ثابت کرنا یہ آپ کی انتہائی جسارت ہے۔ اس لئے کہ اس میں ’’لا یخلقون شیئا‘‘ نے بتلا دیا کہ اس سے مراد پتھر کے بت ہیں اور عیسیٰ علیہ السلام کو قرآن نے اس سے الگ کر دیا۔ کیونکہ قران یہ کہتا ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام نے کہا ’’انی اخلق لکم من الطین کہیٔۃ طیراً‘‘ تو عیسیٰ علیہ السلام تو تخلیق کرتے تھے۔ خدا کے حکم سے، پھر وہ اس آیت میں کیسے شامل ہوگئے۔ دلیل دیتے وقت پوری آیت کو دیکھ لیا کیجئے۔ قرآن میں اوّل بدل ہوہی نہیں سکتا۔
’’اذ اخذ اﷲ میثاق النبیین‘‘ سے حضورﷺ کی ختم نبوت ثابت ہوتی ہے۔ اس کا عیسیٰ علیہ السلام کی موت سے کیا تعلق۔ کیا جن سے میثاق لیا تھا۔ سب مرگئے تو مرزاقادیانی نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو کیوں زندہ آسمان پر بٹھا دیا ہے؟ (نورالحق ص۵۰، خزائن ج۸ ص۶۹)
جب آیت میثاق کے بعد موسیٰ علیہ السلام زندہ رہ سکتے ہیں تو عیسیٰ علیہ السلام بھی زندہ رہے۔ اس میں کیا اعتراض ہے۔ اب میں قرآن سے کچھ دلیل عیسیٰ کی حیات پر نقل کرتا ہوں۔
دلائل
۱… ’’ھو الذی ارسل رسولہ بالہدیٰ (فتح:۲۸)‘‘ یہ آیت صاف طور سے دلالت کرتی ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام دوبارہ زمین پر آئیں گے۔ ہمت ہے تو اس آیت کا جواب دیجئے اور خدا کی قدرت کا تماشا دیکھئے۔
۲… ’’یعلمہ الکتاب والحکمۃ (بقرہ:۱۳۹)‘‘ یہ آیت بتلاتی ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام کو اﷲتعالیٰ قرآن کی تعلیم دے گا۔ ’’الکتاب والحکمۃ‘‘ یکجائی طور سے قران میں جہاں جہاں آیا ہے۔ اس سے قرآن ہی مراد ہے۔ ’’وآتینا آل ابراہیم الکتاب والحکمۃ (قرآن) انزلنا علیک الکتاب والحکمۃ‘‘ مرزاقادیانی نے بھی (شہادۃ القرآن ص۴۲، خزائن ج۶ ص۳۳۸) میں یہی ترجمہ کیا۔
۳… ’’انہ لعلم للساعۃ (زخرف:۶۱)‘‘ حضرت عیسیٰ علیہ السلام قیامت کی نشانی ہیں ترجمہ شاہ ولی اﷲ۔
۴… ’’وان من اہل الکتاب الا لیؤمنن بہ (نسائ:۱۰۹)‘‘ نہیں ہے کوئی اہل کتاب مگر یہ کہ ایمان لائے گا عیسیٰ علیہ السلام پر عیسیٰ علیہ السلام کی موت سے پہلے۔ (ترجمہ شاہ ولی اﷲ۔ فارسی)