اپنی گفتگو اور شناسائی کا آغاز تو آپ سے کرنا ہے۔ فقیر دوزانو ہوکر سامنے بیٹھ گیا تو پہلا سوال کیا کہ آپ کا نام؟ فقیر نے عرض کیا: اﷲ وسایا۔ تو فرمایا، اچھا اچھا خوب رہا۔ اچھا تو، آپ نے ردقادیانیت کن سے پڑھی؟ فقیر نے عرض کیا کہ مولانا لال حسین اخترؒ اور…… فقیر کے ’’اور‘‘ کہنے سے قبل ہی فرمایا:
’’اوہو! میں بھی کہوں کہ کیوں دل آپ کی طرف کھچے جارہا ہے۔ اب معلوم ہوا کہ آپ تو میرے شاگرد ہیں۔‘‘ فقیر نے تعجب سے سراٹھایا تو حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ سمیت سبھی حضرات کو متعجب پایا۔ لیکن قبل اس کے کہ ہم میں سے کوئی کچھ کہے مولانا سید محمد اسماعیل کٹکیؒ نے فرمایا کہ حضرت مولانا لال حسین اخترؒ کا میں ساتھی۔ مولانا کے ساتھ مل کر کئی بار قادیانیوں سے ہاتھ دوچار کئے۔ کانفرنسوں اور تبلیغی پروگراموں میں توبارہا ہفتوں ہفتوں ساتھ رہا۔ وہ بہت بڑے مناظر تھے۔ ان کے نام سے ہی قادیانیوں کی میّا مرجاتی تھی۔ وہ میرے ساتھی، نہ بلکہ میں ان کا ساتھی۔ آپ (فقیر) ان کے شاگر ہوئے تو میرے بھی شاگرد ہوئے۔ لائیے ہاتھ کیسے کہی؟ اس پر تمام مجلس کشت زعفران بن گئی۔ حضرت مولانا سید محمد اسماعیل کٹکیؒ، شیر اڑیسہ، امیر شریعت اڑیسہ، مناظر اسلام ہم میں رہے اور خوب سے خوب تر فقیر نے آپ کی صحبتوں سے فائدہ اٹھایا۔ وہ ایک نامور مناظر تھے۔ تب آپ نے:
۱/۲… قادیانی اسلام: اور
۲/۳… یادگار یادگیر: یہ دو رسائل مرحمت فرمائے تھے۔
’’یادگار یادگیر‘‘ یہ وہ تاریخی مناظرہ کی رپورٹ ہے جو نومبر ۱۹۶۳ء میں بمقام ’’یادگیر‘‘ صوبہ میسور میں آپ کا قادیانیوں سے ہوا۔ آپ اس کی رپورٹ پڑھیں۔ قادیانی مناظر صفحات پے صفحات مرزاقادیانی کی کتب کے اقتباسات سے بھر کر وقت گزارتا ہے۔ جب کہ مولانا سید محمد اسماعیلؒ مناظر اسلام، ٹو دی پوائنٹ گفتگو کرتے اور چٹکلوں میں قادیانی استدلال کو ھباء منثورا کرتے ہیں۔ آپ کی مناظرانہ گھن گرج سے آج بھی مناظرہ کی رپورٹ پڑھتے۔ جسم میں جھر جھری کی کیفیت برپا ہو جاتی ہے۔
۳/۴… ’’ذرا غور کریں‘‘ یہ بھی آپ کا مختصر رسالہ ہے۔ یہ تین رسائل اس جلد میں شائع کرنے