رکین بھی۔ شیخ العرب والعجم حضرت مولانا سید حسین احمد مدنیؒ کے شاگرد تھے اور قافلہ اہل حق کے نیرّ تاباں ہونے کا آپ کو اعزاز حاصل تھا۔ ۱۹۸۴ء میں پاکستان میں قادیانیت کے خلاف امتناع قادیانیت آرڈیننس جاری ہوا۔ تب قادیانی لاٹ پادری ملعون مرزاطاہر، پاکستان سے مجرمانہ فرار اختیار کر کے برطانیہ کو سدھارا۔ اس کے مقابلہ میں برطانیہ میں ۱۹۸۵ء میں پہلی سالانہ ختم نبوت کانفرنس ویمبلے ہال لندن میں منعقد کی گئی۔ تب سے اب تک عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت ہرسال برطانیہ میں ختم نبوت کانفرنس کا انعقاد کرتی ہے۔
۱۹۸۶ء یا ۱۹۸۷ء میں ویمبلے ہال لندن میں ختم نبوت کانفرنس تھی۔ حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ، مولانا علامہ خالد محمود، مولانا منظور احمد چنیوٹیؒ، مولانا منظور احمد الحسینیؒ ایسے مناظرین ختم نبوت، سٹیج پر براجمان تھے۔ حضرت مولانا خواجہ خان محمد صاحبؒ کا سایہ شفقت سب کے سروں پر سحاب رحمت تھا۔ فقیر راقم کا بیان ہوا۔ بیان کے بعد سٹیج سے واپس مڑا تو ایک بزرگ نے آکر فقیر کی پیشانی کو شفقت سے چوما۔ سینہ سے لگایا اور گلوگیر لہجہ میں فرمایا کہ آپ کے بیان سننے سے خوشی ہوئی کہ ہم دنیا سے لاوارث نہیں جارہے۔ ان کی اس بزرگانہ ومشفقانہ گفتگو سے فقیر تو دیدۂ دل راہ ہوا۔ وہ اپنی نشست پر تشریف لے گئے۔ فقیر نے اپنی نشست سنبھال لی۔ دن بھر کانفرنس کامیاب طریقہ پر جاری رہ کر شام کو بخیروخوبی اختتام پذیر ہوئی۔ اس دوران ان بزرگوں کا بھی اعلان وبیان ہوا۔ تب معلوم ہوا کہ یہ حضرت مولانا محمد اسماعیل کٹکیؒ ہیں۔ انڈیا سے تشریف لائے ہیں۔ بیان سے یقین حاصل ہوا کہ ان کی قادیانی کتب پر بڑی مضبوط گرفت ہے اور ردقادیانیت کے فن کے شناور اور عقیدہ ختم نبوت کے علمبردار لگتے ہیں۔ کانفرنس سے اگلے روز سٹاک ویل گرین لندن میں حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ (یاد نہیں کہ کون کون سے حضرات کے ساتھ) تشریف فرماتھے کہ مولانا محمد اسماعیل صاحب کٹکی تشریف لائے۔ سب نے اٹھ کر جھکے دل سے استقبال کیا۔ انہوں نے وارد ہوتے ہی حضرت لدھیانویؒ سے فرمایا کہ حضرت مولانا سید اسعد مدنیؒ نے میری تشکیل چار پانچ روز کے لئے آپ کے ساتھ کی ہے۔ دفتر میں قیام ہوگا۔ آپ میرے فن کے ساتھی ہیں۔ آپ سے مشاورت ہوگی۔
فقیر راقم چائے لانے کے لئے اٹھا تو فرمایا اجی مولانا! کہاں جارہے ہیں۔ ہم نے