عرض حال اواخر ماہ نومبر ۱۹۶۳ء میں ایک تاریخی مناظرہ قادیانیوں سے یادگیر میں ہوا۔ جسے مناظرہ یادگیر کے نام سے قادیانیوں نے شائع کیا ہے۔ مجھے تقریباً ایک ماہ قبل یہ خبر دوستوں سے مل چکی تھی۔ اسی وقت مجھے یہ خیال آیا ضرور اس میں قادیانیوں نے کچھ کتر بیونت اور کمی بیشی کی ہوگی۔ ورنہ ایسا عظیم الشان اور فیصلہ کن مناظرہ جس میں ہر قدم پر قادیانیوں کو لاجواب ہونا پڑا۔ اسے وہ اپنا پیسہ خرچ کر کے کیوں چھاپنے لگے۔ بہرحال کتاب کی تلاش شروع کی اور یہ کتاب مجھے سفر حیدرآباد کے موقع پر خرید ملی۔ اس کے دیکھنے سے پتہ چلا کہ میرا خیال بالکل درست تھا۔ اس میں قادیانی مناظر سلیم صاحب نے ایک مقدمہ لکھ کر مزید جوابات دینے کی کوشش کی ہے۔ جسے وہ وقت پر شاید بھول گئے تھے۔ اسی طرح مناظرہ کے آخری دن کے آخری پرچہ میں جہاں انہوں نے مرزاقادیانی کے چینی ہونے سے صاف انکار کر دیا تھا۔ جسے میری گرفت سے مجبور ہوکر ان کے صدر کو اقرار کرنا پڑا تھا کہ واقعی مرزاقادیانی (تحفہ گولڑویہ ص۲۵، خزائن ج۱۷ ص۱۲۷) پر اپنے چینی ہونے کا اقرار کیا ہے۔ چونکہ یہ آخری تحریر ان کے لئے کھلی شکست تھی اور یہی مناظرہ کا خلاصہ تھا کہ پہلے مرزاقادیانی کا خاندان بتلاؤ اس کے بعد تمہاری دوسری دلیل سنی جائے گی۔ چونکہ یہ آخری تحریر ہماری فتح مبین کی کھلی دلیل تھی۔ اس لئے اس کو صاف حذف کر دیا۔
علاوہ ازیں اس پر چند صفحے کا ایک پیش لفظ لگایا گیا۔ جس کا خلاصہ یہ ہے کہ قادیانی جماعت مناظرہ پسند نہیں ہے اور ان کو مجبوراً یادگیر میں مناظرہ کرنا پڑا ہے۔ حالانکہ یہ بھی سراسر خلاف واقعہ ہے۔ یادگیر میں چیلنج پر چیلنج دے کر مسلمانوں کو ہر طرح مجبور کیا گیا۔ پھر اپنے تجربہ کار علماء کو بلا کر ان سے ایک طرفہ اور من مانا شرائط نامہ لکھوا کر ہمارے ذمہ دار حضرات کے دستخط کرائے گئے۔ وہ تینوں شرائط نامے اسی کتاب میں آپ حضرات ملاحظہ فرمالیں کہ اس پر کسی طرح ’’تنہا پیش قاضی روی وراضی آئی‘‘ کی مثل صادق آتی ہے۔ تینوں موضوع میں قادیانی مدعی بنے۔ یہ ان کے مناظرہ پسند نہ کرنے کی کھلی دلیل ہے اور صفت یہ ہے کہ ہر موضوع میں اوّل بھی ان کا اور آخر بھی ان کا درمیان میں ہم کو کچھ کہنے سننے کا موقعہ دیا گیا۔ اسی طرح ان شرائط ناموں میں اور بھی بہت سی دھاندلیاں موجود ہیں۔ جسے ناظرین خود ہی ملاحظہ فرمالیں۔
قادیانیوں کو یقین تھا کہ ان شرائط پر مسلمانوں کا کوئی مناظر تیار نہ ہوگا اور ہم کو پانچ سو