ہماری طرف سے یہی مطالبہ رہا کہ فلاں فلاں کتابوں کو پیش کرنا خلاف شرائط ہے۔ نیز مرزاقادیانی کی تصدیق میں خود مرزاقادیانی ہی کے قول کو پیش کرنا خلاف شرائط ہے۔ نیز مرزاقادیانی کے قول کو پیش کرنا خلاف شرائط ہونے کے علاوہ عقل کے بھی خلاف ہے۔ مگر وہاں وہی مرغ کی ایک ٹانگ۔ یہ چند سطور اس لئے پیش کیں کہ پورا مناظرہ شرائط کے تابع ہوتا ہے۔ جس نے شرائط کے خلاف ورزی کی، وہ ہار گیا۔ خواہ وہ اس کا اقرار کرے یا نہ کرے۔ مگر اصول یہی ہے۔ اسی لئے حضرت استاذ نے ہر بار ان کو ٹوکا۔ مگر کسی ایک پرچہ پر بھی قادیانی مولوی یہ نہ لکھ سکا کہ تمہارا فلاں حوالہ یا فلاں دلیل خلاف شرائط ہے۔ الفضل بما شہدت بہ الاعدائ!
شرط نمبر:۱۱… دوران مناظرہ تالی بجانا، آوازیں کسنا، شور وغل مچانا، نعرہ لگانا اور کوئی خلاف تہذیب حرکات منع ہوںگی۔ پھر شرط نامہ نمبر:۲ کے دفعہ نمبر:۴ پر ہے۔ شرط نمبر:۱۱ کی پابندی کرانے کا ہر فریق کا صدر ذمہ دار ہوگا۔ اس کے متعلق کچھ تو اجمالاً میں نے پہلے تحریر کر دیا ہے اور اصل جواب اس کا یادگیر والے یا شرکائے مناظرہ ہی دے سکتے ہیں کہ قادیانی حضرات اور ان کے مبلغ نے اس کی کس طرح دھجیاں اڑائیں۔ اگر آپ شرائط ناموں ہی کی کسوٹی پر کس لیں تو یہ مناظرہ قادیانیوں کے لئے شکست پر شکست کا کھلا ثبوت ہے۔
اب ہم آپ کی خدمت میں ’’مناظرہ یادگیر‘‘ کے مقدمہ کا مختصر جواب پیش کرتے ہیں۔ مولوی سلیم نے (اربعین نمبر۲ ص۶) کے حوالہ سے یہ دلیل پیش کی۔ اگر مرزاقادیانی کی صداقت ثابت نہیں ہوسکتی تو پھر دنیا کے کسی نبی کی صداقت بھی ثابت نہیں ہوسکتی۔ یہ عجیب دلیل ہے۔ اگر کسی دلیل کو نور احمد کابلی یا خواجہ اسماعیل لندنی یا دیگر جھوٹے نبی پیش کر دیں تو اس کا کیا جواب قادیانیوں کے پاس ہوگا؟ دلائل کی رو میں بہتے ہوئے انہوں نے اور بھی کچھ ادھر ادھر سے لکھ دیا ہے۔ جس کا اصل مناظرہ سے کوئی تعلق نہیں۔ مثلاً ’’قولاً لینا‘‘ والی آیت سے حکومت کی خوشامد کو درست قرار دینا یہ مرزائیوں ہی کا کام ہے۔ خیر اس سے اتنا تو ثابت ہوگیا کہ مرزاقادیانی ملکہ وکٹوریہ کی خوشامد میں لگے رہتے تھے۔ اسی طرح ص۴ تک چونکہ انہوں نے ایسی باتیں لکھی ہیں جس کا مناظرہ یادگیر سے کوئی تعلق نہیں۔ اس لئے اس سے قطع نظر کرتے ہوئے حضرت فاطمتہ بتولؓ کی توہین کو مٹانے کے لئے چھ سات صفحے ادھر ادھر کی باتوں سے پر کیے ہیں۔ شاید یہ سب دلائل ان کو مجلس مناظرہ میں معلوم نہ تھے۔ ورنہ وہ ان دلائل کو اسی وقت دے دیتے۔ افسوس کہ اتنی طول طویل تحریر کے باوجود اصل سوال جہاں تھا وہیں رہا۔ اس کا