نمونہ ناظرین کرام کے سامنے آجائے۔ اپنے مدمقابل کو کہیں ’’میاں مٹھو‘‘ تو کہیں درشنی پہلوان کہیں ’’لومڑی‘‘ بتایا تو کہیں سوال گندم وجواب چنا۔ واقعی بات ہے برتن میں جو ہوتا ہے وہی ٹپکتا ہے۔ علاوہ ازیں تقریری اسٹیج پر اپنے ہاتھوں سے اشارہ کر کے ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہؓ کی جو توہین کی اور جو ایکٹنگ دکھایا وہ غیر مسلم شرفاء کے لئے بھی ناقابل برداشت ہوگیا۔ ایکٹنگ کرنے کے بعد ایسے حواس باختہ ہوئے کہ باقی پرچہ پڑھنا چھوڑ کر اسٹیج سے بھاگ کھڑے ہوئے۔ جناب ریڈی صاحب صدر جلسہ کے اصرار پر دوبارہ اسٹیج پر آکر باقی مضمون کو پورا کیا۔ اسی وقت ہزاروں انسانوں کو ان کی شرافت وتہذیب کا حال معلوم ہوگیا اور صرف اسی وجہ سے کئی ایک حضرات نے اس مذہب سے تائب ہونے کا اعلان اسی دن شام سے پہلے پہلے کر دیا۔ اس سلسلہ میں نمبر:۱۱ کی شرط کو دیکھ لیا جائے۔ شرط نمبر:۸ پر تحریر ہے کہ مناظرہ میں قرآن مجید، احادیث صحاح ستہ اور اجماع صحابہؓ بطور دلیل پیش ہوں گے۔ مگر قادیانی مناظر نے کن دلائل کو پیش کیا اسے آپ خود ہی ملاحظہ فرمالیں اور تو اور موضوعات کبیر جو نقلی حدیثوں کا مجموعہ ہے جو اس کے نام ہی سے ظاہر ہے اس کو بھی پیش کر دیا۔
اسی شرائط نامہ کے نمبر:۱۴ پر ہے: ’’عربی زبان کی قدیم لغات جیسے صراح یا المنجد یا عربی سے اردو بیان اللسان لغات تشریح کے لئے رکھیں گے… ائمہ تفسیر کا ترجمہ مثلاً شاہ عبدالقادر صاحب دہلویؒ یا شاہ عبدالعزیز صاحب محدث دہلویؒ کے متراجم قرآن ساتھ رہیں گے یا ان سے قدیم تر مترجم القرآن پیش کئے جاسکتے ہیں۔ الیٰ آنکہ اسی طرح اہل سنت والجماعت، مرزاقادیانی کی تحریریں دعوے کے بعد کی پیش کرسکتے ہیں۔ کوئی فریق اقوال الرجال کو دلیل میں پیش نہیں کرے گا۔‘‘
آئیے! ذرا اس شرط کا حال بھی دیکھ لیں۔ حضرت مولانا (سید محمد اسماعیل) مدظلہ نے حضرت شاہ ولی اﷲ صاحب رحمہ اﷲ علیہ کا ترجمہ پیش کیا۔ جو شاہ عبدالعزیزؒ اور شاہ عبدالقادر صاحبؒ کے والد محترم ہیں۔ جن کا پایہ دونوں فریق کو مسلم ہے۔ اس میں تین جگہ حضرت شاہ ولی اﷲ صاحبؒ نے یہی ترجمہ کیا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام زندہ ہیں۔ مگر اس کے جواب میں قادیانی مولوی نے خود اپنے ہی مرزا کا قول پیش کر دیا۔ جو خلاف شرائط مناظرہ ہونے کے علاوہ ایک مستقل خلاف ورزی ہے۔ کیونکہ مرزاقادیانی کی عبارت کو بطور دلیل پیش کرنے کا حق اہل سنت کو نمبر:۱۴ کے مطابق تھا نہ کہ مرزائیوں کو۔ مگر قادیانی مناظر مجبور تھا اس لئے تقریباً ہر پرچہ پر