مقدمہ
الحمد ﷲ رب العلمین والصلوٰۃ والسلام علیٰ رحمۃ اللعالمین وعلیٰ الہ واصحابہ واہل بیتہ واتباعہ اجمعین الی یوم الدین۰ اما بعد!
میرے بزرگو اور دوستو! یہ چند سطور بطور مقدمہ ’’یادگار یادگیر‘‘ کے لئے لکھنے کی جرأت اس لئے کی کہ حضرت استاذ شیراڑیسہ (مولانا سید محمد اسماعیل) مدظلہ العالی کی ہمرکابی میں یادگیر حاضر ہوا تھا۔ میرا ارادہ تھا کہ اس تاریخی مناظرے کی ایک مستقل تفصیل لکھ دوں۔ مگر اس لئے ہمت نہ کی کہ حضرت مدظلہ کا اجمالی جواب بھی بحمداﷲ نہایت کافی وشافی ہے۔ مگر جب کہ قادیانیوں نے ’’مناظرہ یادگیر‘‘ نامی کتاب شائع کر دی اور اس میں خود قادیانی مناظرے نے بطور تتمہ مناظرہ اپنے قلم سے ایک مقدمہ لکھ کر الحاق فرمادیا تو اب میرے لئے ضروری ہوگیا کہ اس ’’مشتے کہ بعد از جنگ یادمی آید‘‘ والی مثل کو واقعہ بنا کر آپ کی خدمت میں پیش کردوں۔ ان کے مقدمہ کا جواب دینے سے پہلے میں یہ ضروری سمجھتا ہوں کہ قادیانی جماعت جو اپنے آپ کو انتہائی مہذب اور اصول کی پابند جماعت کہلاتی ہے اس نے اس مناظرہ میں کس طرح خود اپنی طے کردہ تینوں شرائط ناموں کی خلاف ورزی کی۔ شرائط نامہ نمبراوّل کی دفعہ ’’ب‘‘ میں یہ موجود ہے کہ: ’’عنوان ثانی کی صورت میں اہل سنت والجماعت مدعی ہوگی۔‘‘ پھر اسی کی آدھی سطر بعد نمبر:۲ ڈال کر یہ تحریر ہے کہ: ’’تینوں مضامین میں جماعت احمدیہ مدعی ہوگی۔‘‘ پہلی اور آخری تقریر مدعی کی ہوگی۔ یہ تو وہ تضاد ہے جسے خود شرائط کے اندر ہی پیدا کیاگیا ہے۔ اب اس تضاد کو بھی سن لیں۔ جو ان کے مناظر نے کیا ہے۔ اسی شرائط نامہ کے نمبر:۷ پر یہ درج ہے کہ: ’’نیز مناظرین کے لئے لازمی ہوگا کہ مناظر مضمون زیربحث کے علاوہ کسی اور مضمون پر بحث شروع نہ کرے۔‘‘ مگر وائے تعجب کہ قادیانی مناظر نے اپنے تینوں موضوع میں اس کی خلاف ورزی کی۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی حیات وممات کی بحث میں معراج شریف کا ذکر۔ اجرائے نبوت وختم نبوت کی بحث کے اندر حیات عیسیٰ علیہ السلام کا عنوان اور صدق وکذب مرزا میں مجدد کی بحث چھیڑ دی۔ اسی طرح اسی دفعہ نمبر:۷ کے اوپر کی سطروں سے مناظر صاحبان کے لئے لازمی ہوگا کہ وہ دائرہ اخلاق وشرافت میں تقریر کریں۔ اس شرط کا پڑخچہ بھی قادیانی مناظر نے جابجا اڑایا۔ جس سے بطور نمونہ ہم چند حوالوں کو نقل کرتے ہیں۔ تاکہ ان کا ایفائے عہد اور شرافت نفسی کا