۲…
یا یہ کہے کہ ’’فلما قضٰی زید منہا وطراً زوجنکھا‘‘ سے ظاہر ہے کہ آئندہ رسول بھی منہ بولے بیٹے کی مطلقہ سے شادی کیا کریں گے۔ ورنہ اس آیت کو نکال دیا جائے۔
۴… قرآن مجید میں اس آیت کے باقی رکھنے کی ضرورت یہ تھی کہ امراء کی وفات پر عرب معاشرت میں ان کی ازواج سے شادی کرنا فضیلت میں شمار ہوتا تھا اور قرآن نے سورۂ نور میں بیواؤں سے نکاح کا حکم دیا ہے۔ قرآن نے صریح حکم دیا کہ حضورﷺ کی ازواج سے نکاح نہ کیا جائے۔ وہ آخری امہات المؤمنین ہیں اور آپؐ بوجہ خاتم النبیین ہونے کے آخری ’’باپ‘‘ ہیں۔ اگر یہ حکم مذکورہ نہ ہوتا تو اس سے امت میں فتنہ فساد پیدا ہوتا اور ازواج مطہرات کی پوزیشن بجائے امت کی معلمات دین ہونے کے معمولی بھی نہ رہتی۔ اس لئے اس تاریخی حکم کا تاقیامت باقی رکھنا ضروری تھا۔ تاکہ معلوم ہو کہ یہ خواتین مقدسہ آخری مائیں ہیں اور حضور اقدسﷺ آخری باپ ہیں۔
قادیانی دلیل نمبر:۱۳
’’یا ایہا الرسل کلوا من الطیبات واعملوا صالحاً (المؤمنون:۵۱)‘‘ {میں آئندہ آنے والے رسولوں کو پاک چیزیں کھانے کا حکم ہے۔}
جوابات
۱… یہ حکم انہی رسولوں کے لئے ہے جن کا ذکر اس آیت سے پہلے ہے۔ یعنی نوح، موسیٰ، ہارون اور عیسیٰ علیہم السلام۔ صرف ’’قلنا‘‘ محذوف ہے اور یہ قرآن مجید کا عام انداز بیان ہے۔ جیسے فرمایا: (۱) ’’جاء ت کل نفس معہا سائق وشہید لقد کنت فی غفلۃ من ہذا (ق:۲۱)‘‘ شہید کے بعد قلنا محذوف ہے۔ (۲)’’یعملون لہ ما یشاء من محاریب وتماثیل وجفان کالجواب وقدور راسیات اعملوا اٰل داود شکرا (السبا:۱۳)‘‘ راسیات کے بعد قلنا محذوف ہے یعنی ہم نے کہا۔ (۳)’’فغفرنا لہ ذالک وان لہ عندنا لزلفٰی وحسن مآب یا داود انا جعلناک خلیفۃ (ص:۲۶)‘‘ ماٰب کے بعد قلنا محذوف ہے۔ (۴)’’ولقد اٰتینا داود فضلاً یا جبال اوبی معہ والطیر (السبائ:۱۰)‘‘ فضلاً کے بعد قلنا محذوف ہے۔
۲… امام راغب کہتے ہیں کہ رسول کے لفظ میں نبی کریمﷺ کے ساتھ آپ کے برگزیدہ اصحاب شامل ہیں۔