جوابات
۱… قادیانیوں کا یہ کہنا کہ: ’’ہر ایک نبی کی شہادت نبی ہی دیتا چلا آیا ہے۔‘‘ یہ ایک گھر کا بنایا ہوا قاعدہ ہے۔ جس پر کوئی نص قرآنی یا حدیث دلالت نہیں کرتی اور اگر یہ صحیح ہے تو اس سے لازم آتا ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام جب آسمان سے نازل ہوں گے تو پھر ان کے بعد ان کی تصدیق کے لئے کوئی اور نبی آئے۔ کیونکہ کیا معلوم کہ وہ درحقیقت عیسیٰ ہے یا نہیں۔ پھر اس نبی کی تصدیق کے لئے کوئی اور نبی آنا چاہئے۔ پس اس سے تسلسل لازم آئے گا اور وہ باطل ہے۔
۲… پھر سوچو کہ کیا مسلمان کا یہ اعتقاد ہوسکتا ہے کہ جب تک مرزاغلام احمد قادیانی کو نبی نہ مانا جائے۔ اس وقت تک آنحضرتﷺ کی نبوت مشکوک ومشتبہ ہے اور مرزاقادیانی کی گواہی کی محتاج ہے اور اگر فرض کریں کہ مرزاقادیانی نہ آتے اور گواہی نہ دیتے تو آنحضرتﷺ کی نبوت ہی شکی اور فرضی رہتی۔ ’’نعوذ باﷲ من ہذہ الخرافات‘‘ یہ کس قدر بیہودہ خیال ہے اور ہزار افسوس ہے۔ ان قادیانیوں کے ایمان پر جن کے نزدیک ہمارے نبیﷺ کی نبوت ثابت نہیں ہوئی۔ بلکہ جب مرزاغلام احمد قادیانی نبی بن کر گواہی دی تو ثابت ہوگئی۔
۳… دراصل اس آیت میں یہ بتانا مقصود ہے کہ مؤمن کے ہاتھ میں صرف ایک بیّنہ یعنی کتاب یا روشنی ہی نہیں ہوتی۔ بلکہ اس کے لئے ایک کامل نمونہ بھی موجود ہے جو اس بیّنہ پر عمل کر کے اس کے رستہ کو بالکل صاف کر دیتا ہے اور اس میں بھی اس کتاب پر عمل کرنے کی طاقت پیدا کر دیتا ہے۔ اسی طرح کتابوں کا نازل کرنا اور انبیاء کو ان کتابوں کی عملی تعلیم کا نمونہ بنانا یہ اﷲتعالیٰ کی قدیم سے سنت رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آگے جن انبیاء کا ذکر آتا ہے وہ سب اپنی امتوں سے یہی خطاب کرتے ہیں کہ وہ اپنے رب کی طرف سے ایک بیّنہ پر ہیں۔ کیونکہ ہر نبی کی وحی اس کے حق میں بیّنہ ہی ہے۔ مگر اس میں ایک دوسری غرض یہ بھی ہے کہ یہ بیّنہ یعنی قرآن ایسی صاف ہے کہ اس کی شہادت حضرت موسیٰ علیہ السلام کی کتاب اور پہلی کتابوں میں بھی ہے۔
۴… قادیانی سربراہ مرزامحمود نے اس آیت کی تفسیر میں کتنی غلط بات لکھی ہے کہ وہ ’’أفمن‘‘ سے مراد قرآن مجید لیتے ہیں۔ حالانکہ کوئی وجہ نہیں کہ ’’من‘‘ سے مراد قرآن لیا جائے۔ جو ایک غیرذی حیات چیز ہے۔ من صرف ذوی العقول کے لئے آتا ہے۔ آگے آتا ہے: ’’اولئک یؤمنون بہ‘‘ کہ وہی اس پر ایمان لاتے ہیں۔ ’’اولئک‘‘ کی مشار الیہ ایک جماعت چاہئے جو بیّنہ پر ہے۔ مرزامحمود کی تاویل سے معنی یوں بنے گا کہ ’’قرآن قرآن پر ایمان لائیں گے۔‘‘ اسی لئے وہ اپنی تفسیر میں یہ واضح نہ کر سکے کہ اولئک کا مشار الیہ کون ہے۔