جاتا ہے اور اسی کے توسط سے انسانوں کو ملتا ہے۔ پیش گوئیوں والا غیب تو اولیاء اور محدثین کو بھی حاصل ہوتا ہے۔ مگر حقیقی غیب صرف انبیاء سے مخصوص ہے۔ا س قسم کا ہرغیب رسول اﷲﷺ کے ذریعہ امت کو دیا جاچکا ہے۔ اس لئے مزید کسی نبوت کی گنجائش نہیں۔
قادیانی دلیل نمبر:10 ’’یلقی الروح من امرہ علیٰ من یشاء (المؤمن:۱۵)‘‘ {اﷲتعالیٰ اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتا ہے۔ اپنی روح ڈالتا ہے۔}
یعنی منصب نبوت اس کو بخشتا ہے۔ لہٰذا ثابت ہوا کہ آئندہ بھی نبی آتے رہیں گے۔
جوابات
۱… آیت مذکورہ میں ’’روح‘‘ کے معنی نبوت کے نہیں ہیں۔ بلکہ اس کے یہی معنی ہیں۔ جیسا کہ حدیث نبوی میں آیا ہے کہ: ’’لہم البشریٰ فی الحیوٰۃ الدنیا‘‘ یعنی مؤمنوں کے لئے مبشرات باقی رہ گئے ہیں۔ یا فرمایا: ’’لم یبق من النبوۃ الا المبشرات‘‘ کہ خدا کا کلام مبشرات کے رنگ میں امت محمدیہ کے لئے باقی رکھا گیا ہے۔ چنانچہ اسی کے تحت گزشتہ چودہ سو سال میں ہزارہا اولیائے امت اور علماء حق کو انوار نبوت ملے اور آثار نبوت بھی ان کے اندر موجزن تھے۔ مگر وہ نبی نہ تھے۔
۲… روح کا لفظ محض کلام کے معنی میں آتا ہے اور اﷲتعالیٰ کا کلام غیر نبی سے بھی ہوتا ہے۔ جیسا کہ حدیث صحیح ’’رجال یکلمون من غیر ان یکونوا انبیائ‘‘ سے ظاہر ہے۔ پس اﷲتعالیٰ کا اپنے بندوں سے کلام کرنا اجرائے نبوت کی دلیل نہیں بن سکتی۔
قادیانی دلیل نمبر:۱۱
’’یتلوہ شاہد‘‘
اس آیت کی تفسیر میں قادیانی کہتے ہیں کہ آنحضرتﷺ کی صداقت کو ثابت کرنے کے لئے ایک نبی شاہد کی ضرورت ہے۔ چنانچہ لکھتے ہیں۔ ’’اس کی صداقت کو ثابت کرنے کے لئے جب اتنا عرصہ گزر جائے گا کہ پہلے دلائل قصوں کے رنگ میں رہ جائیں تو خداتعالیٰ کی طرف سے ایک نیا گواہ آجائے گا… اس جگہ خصوصیت کے ساتھ مسیح موعود (مرزاغلام احمد) کا ذکر ہے۔‘‘ (تفسیر کبیر ج۹ ص۲۰۲)