پھر ایک جگہ مرزاقادیانی لکھتے ہیں کہ: ’’ایسے ہی آیت الیوم اکملت لکم دینکم اور آیت ولکن رسول اﷲ وخاتم النبیین میں صریح نبوت کو آنحضرتﷺ پر ختم کر چکا ہے۔‘‘ (تحفہ گولڑویہ ص۵۱، خزائن ج۱۷ ص۱۷۴)
مذکورہ حوالہ جات اور ’’لم یبق من النبوۃ الا المبشرات‘‘ جیسی احادیث کی روشنی میں زیر بحث آیت کا صرف یہ مفہوم ہے کہ ’’علماء امتی کانبیاء بنی اسرائیل‘‘ کے مطابق امت محمدیہ میں بڑے بڑے بزرگ اولیاء اﷲ، مجدد ومحدث، غوث، قطب و ابدال پیدا ہوتے رہیں گے جو اﷲتعالیٰ سے ہم کلامی کا شرف پائیں گے۔ یہ لوگ اگرچہ نبی اور رسول نہ ہوں گے۔ اﷲتعالیٰ ان سے وہی کام لے گا جو انبیاء سے لیا کرتا تھا۔ جن میں سے ایک اظہار غیب بھی ہے۔
۲… مرزاقادیانی نے یوں تو بہت سی پیش گوئیوں کو خدا کی طرف منسوب کیا ہے۔ مگر خود ان پیش گوئیوں کا نہ مطلب سمجھ سکے نہ مصداق۔ کاش قادیانی حضرات، مرزاقادیانی کی ان پیش گوئیوں پر ہی سرسری نظر ڈال لیں۔ جن کو انہوں نے اپنے صدق وکذب کا معیار قرار دیا ہے تو ان کے دعویٰ کی حقیقت بآسانی سمجھ میں آسکتی ہے۔
۳… غیب سے مراد صرف پیش گوئیاں ہی نہیں۔ ماضی، حال اور مستقبل کی ہر چیز جو محسوسات سے غائب ہو ’’غیب‘‘ ہے۔ ذرا ’’یؤمنون بالغیب‘‘ پر غور کیا جائے۔
حضرت نوح علیہ السلام کے واقعات کا ذکر کر کے فرمایا: ’’تلک من انباء الغیب نوحیہا الیک ما کنت تعلمہا انت ولا قومک من قبل ہذا (ہود:۴۹)‘‘ کہ یہ غیب کی خبریں ہیں۔ جن سے تو اور تیری قوم دونوں بے خبر تھے۔
کائنات کے متعلق علم کس قدر ہی کیوں نہ بڑھ جائے۔ ایک حصہ غیب کا ضرور رہتا ہے۔ اسی لئے فرمایا: ’’عالم الغیب والشہادۃ (الحشر:۲۲)‘‘ خدا غیب کو بھی جانتا ہے اور موجود کو بھی۔ اس کے لئے کوئی چیز غائب نہیں۔ البتہ تمہارے لئے ایک حصہ غیب کا ہے اور دوسرا موجود کا۔
ہم غیب کے ایک حصہ کا علم حاصل کرتے چلے جاتے ہیں اور وہ ہمارے لئے موجود بنتا چلا جاتا ہے۔ مگر غیب کی بعض قسمیں ایسی ہیں۔ جن پر ہم اپنی کوشش سے غالب نہیں آسکتے۔ مثلاً خدا کی ذات وصفات، احکام وشرائع اور مابعد الموت۔ یہ صرف نبی کو اﷲتعالیٰ کی طرف سے بتایا