اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ صرف ظالم قوم ہی نبوت سے محروم رہتی ہے۔
جوابات
۱… یہ خیال ہی غلط ہے کہ ظالم قوم نبوت سے محروم رہتی ہے۔ سب سے بڑا ظلم تو شرک ہے۔ ’’ان الشرک لظلم عظیم (لقمان:۱۳)‘‘ انبیاء تو اسی لئے آتے ہیں کہ ظالموں کا ظلم دور ہو جائے۔ عرب سے بڑھ کر کون سی قوم ظالم تھی۔ اس کی ہدایت کے لئے آنحضرتﷺ تشریف لائے۔
اور اگر کہو کہ وہ جسے نبوت نہ ملے ظالم ہوتا ہے تو صحابہ کرامؓ اور تمام امت محمدیہ اب تک ظالم ٹھہرتی ہے اور مرزاغلام احمد کی وفات کے بعد تمام قادیانی امت بھی ظالم ٹھہرتی ہے۔
۲… مذکورہ آیت تو یہ بتاتی ہے کہ جو لوگ آزمائشوں میں کامیاب ہوتے ہیں وہ دنیا میں امام بنائے جاتے ہیں اور ابراہیم علیہ السلام اس امامت کے منصب سے پہلے بھی نبی بن چکے تھے۔ یہ امامت کس نوعیت کی تھی۔ لکھا ہے کہ: ’’خدا نے ابراہیم علیہ السلام سے کہا تیری نسل اپنے دشمنوں کے دروازے پر قابض ہوگی اور تیری نسل سے دنیا کی ساری قومیں برکت پائیں گی۔‘‘
(پیدائش ۱۷،۱۸/۲۲)
پھر فرمایا: ’’میں تجھ کو اور تیرے بعد تیری نسل کو کنعان کا تمام ملک جس میں تو پردیسی ہے دیتا ہوں۔‘‘ (پیدائش ۷،۸/۷)
قادیانی دلیل نمبر:۸
’’ماکنا معذبین حتیٰ نبعث رسولاً (بنی اسرائیل:۱۵)‘‘
یہ آیت ظاہر کرتی ہے کہ خدا جب تک رسول مبعوث نہ کرے کسی کو عذاب نہیں دیتا۔ اگر عذاب ہمیشہ نازل ہوتے رہیں گے تو رسول بھی آتے رہیں گے۔
جوابات
۱… اگر ہر عذاب کے واقعہ پر رسول کا موجود ہونا ضروری ہے تو بتایا جائے کہ:
۱…
آنحضرتﷺ کے بعد جس قدر عذاب آئے وہ کن رسولوں کی تکذیب کے باعث آئے؟
۲…اندلس اور بغداد کی تباہی کے وقت کون سا رسول موجود تھا؟
۳…
انگلستان کا خطرناک طاعون ۱۳۴۸ء میں کس رسول کے باعث تھا؟