یا یہود نے کہا: ’’انا قتلنا المسیح عیسیٰ ابن مریم رسول اﷲ (النسائ:۱۵۷)‘‘ کہ ہم نے مسیح ابن مریم رسول کو قتل کر دیا ہے۔ حالانکہ حق یہ ہے کہ نہ فرعون حضرت موسیٰ علیہ السلام کو رسول مانتا تھا نہ ان کی وحی کو ’’الذکر‘‘ سمجھتا تھا۔ نہ یہود حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو رسول یقین کرتے تھے۔ اس کے باوجود انہوں نے یہ الفاظ استعمال کئے تو یہ بطور استہزاء تھا نہ بطور صداقت۔ یہی تمام مفسرین کا مذہب ہے۔ قادیانیوں کو کوئی تاریخی ثبوت دینا چاہئے کہ فرعون اور اس کی قوم حضرت یوسف علیہ السلام کی رسالت کی قائل تھی۔
۲… یہود اور ختم نبوت ’’انہم ظنوا کما ظننتم ان لن یبعث اﷲ احداً (الجن:۷)‘‘ کہنے والی جنوں کی ایک مشرک قوم تھی۔ جیسا کہ ان کے قول ’’ولن نشرک بربنا احد (الجن:۳)‘‘ سے ظاہر ہے کہ ہم اب آنحضرتﷺ پر ایمان کے بعد شرک نہ کریں گے۔ وہ کہتے ہیں کہ ان (انسانوں) نے بھی خیال کیا۔ جیسا کہ تم نے خیال کیا کہ خدا کسی کو (بعد از موت) مبعوث نہ کرے گا۔ یہ لوگ آخرت کے منکر تھے۔ یہود کا ایک فرقہ بھی آخرت کا منکر تھا۔ یہود تو موسیٰ علیہ السلام کے بعد ’’مسیح‘‘ اور ’’احمد‘‘ کی آمد کے منتظر تھے۔ گویا یہود کا اجماع نبوت جاری ہونے پر تھا یا کہ ختم ہونے پر؟ امام ابن ہشام بتاتے ہیں کہ یہود مثیل موسیٰ نبی اور وہ نبی کی بعثت کے منتظر تھے اور کہتے تھے کہ جب وہ آئے گا تو یہود مشرکین عرب پر غالب آجائیں گے۔ جیسا کہ آیت ’’وکانوا من قبل یستفتحون علی الذین کفروا (البقرہ:۸۹)‘‘ سے بھی ظاہر ہے۔ پس یہ آیت بتاتی ہے کہ یہود انبیاء کی آمد کے قائل تھے۔
۳… اوّل تو ختم نبوت کے عقیدہ کی تلقین صرف اہل اسلام کو ہی کی گئی ہے۔ لیکن اگر کسی اور قوم نے بھی از خود یہ عقیدہ تراش لیا ہو تو اس سے اسلام کے عقیدۂ ختم نبوت پر کوئی حرف نہیں آتا۔
قادیانی دلیل نمبر:7 ’’لاینال عہدی الظالمین‘‘
’’واذابتلیٰ ابراہیم ربہ بکلمٰت فاتمہن قال انی جاعلک للناس اماماً قال ومن ذریتی قال لا ینال عہدی الظالمین (البقرہ:۱۲۴)‘‘ {جب اﷲ تعالیٰ نے ابراہیم علیہ السلام کو چند باتوں میں آزمایا اور ابراہیم علیہ السلام نے ان کو پورا کر دکھایا تو اﷲتعالیٰ نے کہا میں تجھے لوگوں کا امام بنانے والا ہوں۔ اس نے کہا اور میری ذریت میں سے بھی۔ اﷲتعالیٰ نے کہا میرا عہد ظالموں کو ہرگز نہیں پہنچے گا۔}