میں لکھا ہے۔ وغیرہ۔ اسی طرح مسلمان بھی فرعون اور یہود کے نقش قدم پر چل کر ختم نبوت کا عقیدہ اختیار کر چکے ہیں۔
جوابات
۱… اصل واقعہ قرآن مجید کے الفاظ میں یہ ہے۔ ’’قال رجل مؤمن من اٰل فرعون… لقد جاء کم یوسف… قلب متکبر جبار (المؤمن:۳۴،۳۵)‘‘ جس کا ترجمہ یہ ہے کہ: ’’قوم فرعون میں سے ایک مؤمن مرد نے جو اپنا ایمان چھپاتا تھا کہا کہ کیا تم ایسے شخص کو قتل کرتے ہو جو کہتا ہے کہ میرا رب اﷲ ہے اور اس سے پہلے تمہارے پاس یوسف کھلے دلائل لے کر آیا۔ مگر تم اس کے بارے میں جو تمہارے پاس لایا شک میں ہی رہے۔ یہاں تک کہ وہ وفات پاگیا۔ تو تم نے کہا اﷲ اس کے بعد کوئی رسول نہیں بھیجے گا۔ اسی طرح اﷲتعالیٰ اسے گمراہی میں چھوڑتا ہے جو حد سے گزرنے والا، شک کرنے والا ہے۔ جو اﷲ کی آیات کے بارے میں جھگڑا کرتے ہیں۔ بغیر کسی دلیل کے جو ان کے پاس آئی ہو۔ یہ اﷲ کے نزدیک اور ان کے نزدیک جو ایمان لائے۔ بیزاری کی بات ہے۔ اسی طرح اﷲ ہر متکبر، سرکش کے دل پر مہر لگاتا ہے۔‘‘
یہ آیات تو بتاتی ہیں کہ رجل مؤمن نے کہا کہ:
۱…
اہل مصر یوسف علیہ السلام کے بارے میں شک میں رہے۔۲…
ان لوگوں کو مسرف مرتاب اور آیات الٰہیہ میں جھگڑا کرنے والے متکبر جبار قرار دیاگیا ہے جو مؤمنین یوسف علیہ السلام کی صفات نہیں ہوسکتیں۔
۳…
قوم فرعون یا قدیم مصری تو سلسلۂ انبیاء ورسل کے سرے سے منکر تھے۔
۴…
اور فرعون خود مدعی الوہیت تھا اور کہتا تھا کہ تمہارے لئے اپنے سوا کوئی معبود نہیں جانتا۔ اس کو اور اس کی قوم کو توحید، رسالت یوسف اور ختم نبوت کا قائل قرار دینا قرآن اور تاریخ سے ناواقفیت کی انتہاء ہے۔
۵…
’’لن یبعث اﷲ من بعدہ رسولاً‘‘ کہنے والے تو خود نبوت یوسف کے بھی منکر تھے اور ان کا قول بطور استہزاء تھا۔ جیسا کہ فرعون نے موسیٰ علیہ السلام کے متعلق کہا۔ ’’اے وہ شخص جس پر ذکر اتارا گیا ہے تو تو مجنون ہے۔‘‘ یا کہا: ’’ان رسولکم الذی ارسل الیکم لمجنون (الشعرائ:۲۷)‘‘ کہ تمہارا رسول جو تمہاری طرف بھیجا گیا ہے مجنون ہے۔