’’وماکان اﷲ لیذر المؤمنین علیٰ ما انتم علیہ حتیٰ یمیز الخبیث من الطیب وماکان اﷲ لیطلعکم علی الغیب ولکن اﷲ یجتبی من رسلہ من یشاء فاٰمنوا باﷲ ورسلہ وان تؤمنوا وتتقوا فلکم اجر عظیم (آلعمران:۱۷۸)‘‘ {اور اﷲ ایسا نہیں کہ مؤمنوں کو اس حالت پر چھوڑ دے جس پر (اے گروہ کفار ومنافقین) تم ہو۔ (بلکہ خدا انہیں اس حالت سے بلند کرنا چاہتا ہے) یہاں تک کہ ناپاک کو پاک سے الگ کر دے۔ (اور مؤمنین سے ہر قسم کی ایمانی اور عملی کمزوریاں دور کر دے) اور اﷲ ایسا بھی نہیں کہ تم کو (اپنی ہدایات وقوانین کے) غیب پر اطلاع دے۔ لیکن اﷲ اپنے رسولوں میں سے جسے چاہتا ہے (اس مرتبہ پر) فضیلت بخشتا ہے۔ (جیسا کہ محمد رسول اﷲ کو چنا) سو تم اﷲ اور اس کے رسولوں پر ایمان لاؤ اور اگر تم ایمان لاؤ اور تقویٰ اختیار کرو تو تمہیں بڑا اجر ملے گا۔}
گویا اس آیت میں رسولوں کے سلسلہ کو جاری رکھنے کا کوئی ذکر نہیں ہے۔
۲… سوال کرنے والوں نے کہا تھا کہ ہمیں فرداً فرداً غیب پر کیوں اطلاع نہیں دی جاتی؟ جواب میں فرمایا۔ یہ رسول کا کام ہے۔ آئندہ بعثت رسل کے متعلق نہ کسی نے سوال کیا نہ جواب دیا گیا۔
۳… یہ کہنا کہ آئندہ رسول آئے گا یہ مطلب رکھتا ہے کہ آنحضرتﷺ کے ذریعہ خبیث وطیب میں امتیاز نہیں ہوا۔ حالانکہ قرآن مجید فرماتا ہے۔ ’’یحل لہم الطیبات ویحرم علیہم الخبائث (الاعراف:۱۵۷)‘‘
’’جاء الحق وزہق الباطل ان الباطل کان زہوقا (بنی اسرائیل:۸۱)‘‘ حق آگیا اور باطل ہلاک ہو گیا۔ بے شک باطل ہلاک ہونے والا ہی تھا۔ پس حق وباطل میں حضورﷺ کے ذریعہ امتیاز قائم ہوچکا ہے۔ اس لئے اب کسی اور رسول کی ضرورت نہیں رہی۔
قادیانی دلیل نمبر:۶
قادیانی کہتے ہیں کہ فراعنہ مصر بھی ختم نبوت کے قائل تھے۔ ان کا قول تھا۔ ’’لن یبعث اﷲ من بعدہ رسولا (المؤمن:۳۴)‘‘ {کہ خدا یوسف علیہ السلام کے بعد رسول پیدا نہیں کرے گا اور یہود کہتے تھے۔} ’’لن یبعث اﷲ احداً (الجن:۷)‘‘ {کہ خدا کسی رسول کو مبعوث ہی نہیں کرے گا۔}
اور یہود کا اجماع ہے کہ موسیٰ علیہ السلام کے بعد نبی نہیں آئے گا۔ جیسا کہ مسلم الثبوت