اس آیت کا ترجمہ قادیانی یوں کرتے ہیں: ’’اﷲتعالیٰ فرشتوں اور لوگوں میں سے رسول چنتا رہے گا۔‘‘
اس آیت میں ’’یصطفی‘‘ کا لفظ ہے جو حال اور مستقبل کے لئے آتا ہے۔ جس سے معلوم ہوا کہ آئندہ حسب ضرورت اﷲ کی طرف سے رسول آتے رہیں گے اور فرشتے ان کی طرف وحی لائیں گے۔
جوابات
۱… آیت کے الفاظ یہ نہیں کہ ’’اﷲ یبعث من الملئکۃ‘‘ اور ’’اصطفائ‘‘ کا معنی کسی لغت کی کتاب میں بھیجنا نہیں لکھا۔
۲… قرآن مجید میں آتا ہے: ’’یا بنی ان اﷲ اصطفیٰ لکم الدین (البقرۃ:۱۳۲)‘‘ ابراہیم نے کہا اے میرے بیٹو! اﷲ نے تمہارے لئے دین پسند کیا ہے۔ پھر فرمایا: ’’یامریم ان اﷲ اصطفاک وطہرک واصطفاک علیٰ نساء العالمین (آل عمران:۴۲)‘‘ اور ’’ان اﷲ اصطفٰی اٰدم ونوحاً واٰل ابراہیم واٰل عمران علیٰ العالمین (آل عمران:۳۲)‘‘ ان آیات میں دین کو یا آل ابراہیم اور آل عمران کو یا مریم کو چننا اور مبعوث کرنا مراد نہیں۔ محض فضیلت عطاء کرنا مراد ہے۔ آیت ’’اﷲ یصطفٰی من الملئکۃ‘‘ سے مراد بھی یہی ہے کہ اﷲتعالیٰ پہلے بھی ان رسولوں کے مدارج میں ترقی دیتا رہا ہے اور آئندہ بھی دیتا رہے گا۔
۳… اگر ’’یصطفی‘‘ کے معنی بھیجنا بھی کر لئے جائیں تو بھی بھیجنا خداتعالیٰ کی مشیت پر ہے۔ جس طرح اس نے ایک وقت تک کتابیں بھیجیں اسی طرح رسول بھیجے۔ اب اگر وہ کتابیں نہ بھیجے یا رسول نہ بھیجے اور نبوت ختم کر دے تو اس پر کوئی الزام نہیں آتا۔ سیاق کلام بتاتا ہے کہ آیت میں ان لوگوں کے خیال کی تردید ہے جو انسانوں کو الوہیت کا مقام دیتے ہیں۔ فرمایا معزز ترین گروہ تو انبیاء ورسل کا ہے۔ مگر وہ بھی الوہیت کے اہل نہیں یا بطور اصول فرمایا کہ اﷲتعالیٰ انسانوں اور ملائکہ کو رسالت کا منصب تو دیتا ہے مگر خدائی نہیں دیتا۔ تم کیوں ان کی طرف خدائی منسوب کرتے ہو۔ سیاق کلام کے ساتھ مذکورہ ترجمہ پر غور کر لیا جائے تو قادیانی استدلال باطل ہوجائے گا۔ ’’یا ایہا الناس ضرب مثل… ترجع الامور (الحج:۷۳،۷۴)‘‘ {اے لوگو! ایک مثال بیان کی جاتی ہے۔ اسے غور سے سنو۔ وہ جنہیں تم اﷲ کے سوا پکارتے ہو ایک مکھی بھی پیدا نہیں کرسکتے۔ گو وہ سب اس کے لئے اکٹھے ہو جائیں اور اگر مکھی ان سے کوئی چیز چھین کر لے