الغرض اس آیت میں اسی قدیم وعدہ کو یاد دلا کر آنحضرتﷺ پر ایمان کی تلقین ہے۔ جب آنحضرتﷺ پر ایمان لے آئے تو اس ارشاد کی تکمیل ہوگئی۔ بعد میں کوئی رسول آئے گا یا نہیں اس کا ذکر آیت ’’امایاتینکم رسل منکم‘‘ میں نہیں بلکہ آیت ’’خاتم النبیین‘‘ میں ہے۔
۵… آیات مذکورہ میں سب رسولوں کے اپنی اپنی قوم کی طرف مبعوث ہونے اور آنحضرتﷺ کے تمام انسانوں کی طرف مبعوث ہونے کا ذکر ہے۔ جس سے ثابت ہے کہ آپؐ کی نبوت ہر قوم اور ہر زمانہ کے لئے ہے۔
۶… ’’ویضع عنہم اصرہم‘‘ خود دلیل ختم نبوت ہے۔ کیونکہ تمام انبیاء کی امتوں سے حضور علیہ السلام کی تصدیق کا وعدہ لیاگیا تھا اور کہاگیا تھا کہ ’’أقررتم واخذتم علیٰ ذالکم اصری (آل عمران:۸۰)‘‘ {یعنی کیا تم اقرار کرتے ہو اور ان باتوں پر میرے عہد کا بوجھ لیتے ہو۔ یہ عہد کا بوجھ سب اقوام کے سر پر رہا۔ حضورﷺ کی تشریف آوری پر جو ایمان لائے ان سے یہ بوجھ اترگیا۔ (یضع عنہم اصرہم) آپﷺ کے بعد کسی اور نبی پر ایمان لانے کا بوجھ قرآن مجید نے ہم پر نہیں ڈالا۔ جسے کوئی اور آکر اتارے۔}۷… آیت ’’امایاتینکم‘‘ بتاتی ہے کہ اگر رسول آئیں تو مان لینا، سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب رسول نہ آئیں تو کیاکیا جائے۔ اس کا جواب یہی ہے کہ جب رسول نہ آئیں تو پہلے ہی رسول کی اقتداء کی جائے۔ چودہ سو سال تک کوئی رسول نہ آیا اور امت نے آنحضرتﷺ کی اقتداء کی تو اس آیت کے مفہوم میں کوئی فرق نہ آیا تو اب اگر چودہ ہزارسال تک کوئی رسول نہ آئے اور ہم اپنے نبیﷺ کی اقتداء کرتے رہیں تو آیت کا منشاء پورا ہو جائے گا۔
۸… آیت ’’واٰخرین منہم لما یلحقوا بہم (جمعہ:۳)‘‘ بتاتی ہے کہ آئندہ کے لئے بھی تلاوت آیات وتزکیہ نفوس کے لئے کسی نبی کی ضرورت نہ ہوگی۔ آنحضرتﷺ ہی کا فیضان کافی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خود قادیانی امت کے نبی مرزاغلام احمد قادیانی نے بھی بالآخر اعتراف کیا ہے کہ: ’’نوع انسانی کے لئے روئے زمین پر اب کوئی کتاب نہیں۔ مگر قرآن، اور تمام آدم زادوں کے لئے اب کوئی رسول اور شفیع نہیں مگر محمد مصطفیٰﷺ۔‘‘
(کشتی نوح ص۱۳، خزائن ج۱۹ ص۱۳)
قادیانی دلیل نمبر:۴
’’اﷲ یصطفی من الملئکۃ رسلاً ومن الناس‘‘