۲… اگر آیت کا یہ مطلب ہے کہ ضرور رسول آتے رہیں گے تو صاحب شریعت انبیاء کا آنا بھی لازم آئے گا۔کیونکہ اسی وعدۂ الٰہی کے مطابق تشریعی وغیرتشریعی نبی دنیا میں آتے رہے۔ بلکہ آیت کے اگلے الفاظ ’’یقصون علیکم اٰیاتی‘‘ اور دوسری آیت کے الفاظ کہ ’’والذین کذبوا بایاتنا‘‘ بھی تائید کرتے ہیں کہ آنے والے تشریعی انبیاء ہیں۔ کیونکہ ہر نبی کا کام تلاوت آیات اور قصص آیات ہے۔ جو اس پر نازل ہوتی ہیں۔ محض پچھلے نبیوں کی تعلیمات کو پیش کرنے کا کام مجددین بھی کرتے ہیں۔۳… اگر مذکورہ آیت سے مراد تسلسل نبوت کا بیان ہے تو اس سے مراد ہدایت وشریعت کا باربار آتے رہنا کیوں نہ مراد لیا جائے۔
۴… اس آیت کے بعد اسی سورۂ اعراف میں اس کے وقوع کا ذکر فرمایا ہے کہ ’’ولقد ارسلنا نوحاً الیٰ قومہ (الاعراف:۵۹)‘‘
’’والیٰ عاد اخاہم ہوداً (۶۵)‘‘
’’والیٰ ثمود اخاہم صالحاً (۷۳)‘‘
’’ولوطاً اذقال لقومہ (۸۰)‘‘
’’والیٰ مدین اخاہم شعیباً (۸۴)‘‘
’’ثم بعثنا من بعدہم موسیٰ (۱۰۳)‘‘
اس کے بعد آنحضرتﷺ کی بعثت کا ذکر فرمایا: ’’الذین یتبعون الرسول النبی الامی الذی یجدونہ مکتوباً عندہم فی التوراۃ والانجیل یأمرہم بالمعروف وینہاہم عن المنکر ویحل لہم الطیبات ویحرم علیہم الخبائث ویضع عنہم اصرہم والاغلال التی کانت علیہم فالذین اٰمنوا بہ وعزروہ ونصروہ واتبعوا النور الذی انزل معہ اولئک ہم المفلحون۰ قل یایہاالناس انی رسول اﷲ الیکم جمیعاً (الاعراف:۱۵۷،۱۵۸)‘‘ {وہ جو رسول نبی امی کی پیروی کرتے ہیں۔ جسے وہ اپنے پاس توراۃ وانجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں۔ وہ انہیں اچھی باتوں کا حکم دیتا ہے اور بری باتوں سے روکتا ہے اور ان پر پاک چیزیں حلال کرتا ہے اور ناپاک کو حرام کرتا ہے اور ان سے ان کا بوجھ اتارتا ہے اور وہ طوق بھی اتارتا ہے جو ان پر تھے۔ سو جو اس پر ایمان لاتے ہیں اور اس کی تعظیم کرتے ہیں جو اس کے ساتھ نازل ہوا وہی فلاح پانے والے ہیں کہ اے لوگو! میں تم سب کی طرف اﷲ کا رسول ہوں۔}