نظام پیش کیا جس کے بعد نہ کسی نئے نبی کی چاہے وہ تشریعی ہو یا غیرتشریعی ظلی ہو کہ بروزی ضرورت نہیں۔
یادگیر میں مرزائی جماعت کے چیلنج مناظرہ کو ہم چاروناچار قبول کرنے پر مجبور ہوئے۔ اس راہ میں جو مشکلات تھیں۔ ان میں مسلمانوں کا منتشر حالت میں رہنا اور فراہمی مالیت کا سوال اہمیت رکھتا تھا۔ مگر خدا کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ اس مسئلہ پر مسلمانان یادگیر نے اپنے اتحاد کا ایک بے نظیر نمونہ پیش کیا اور اپنی حیثیت سے کہیں زیادہ مالی امداد فرما کر اس کام کو بحسن وخوبی تکمیل کو پہنچایا۔ جس کے لئے وہ قابل مبارک باد بھی ہیں اور مستحق شکریہ بھی۔
یہ بھی ایک عجیب بات ہے کہ مرزائی جماعت نے جب ہمیں چیلنج مناظرہ دیا تھا اور اس وقت تک جب کہ ہم نے اسے قبول نہیں کیا تھا۔ یہ تقاضا تھا کہ ہم اسے قبول کریں۔ ورنہ کھلی شکست کا اعلان کر دیا جائے گا۔ مگر بعد میں ایک مرحلہ ایسا بھی آیا جب کہ ہم نے مناظرہ کے تمام انتظامات مکمل کر لئے تھے اور ہماری طرف سے مناظرہ میں شریک ہونے والے علمائے کرام کے ناموں کا اعلان بھی کر دیا گیا تھا۔ تب چوہدری مبارک علی نے جو مرزائی جماعت کی طرف سے صدر مناظرہ تھے۔ مناظرہ سے گریز کی راہ ڈھونڈنی شروع کیں۔ مگر خدا کا فضل ہوا کہ وہ اس میں کامیاب نہ ہوسکے۔
شرائط مناظرہ طے ہوجانے کے بعد ہم نے ہندوستان کے اسلامی ادارہ جات سے خط وکتابت شروع کی۔ مولاناسید اسعد مدنی صاحب مدظلہ ناظم اعلیٰ جمعیت علماء ہند، مولانا محمد سلیم صاحب سیکرٹری نشرواشاعت جمعیت اہل حدیث کے جوابات نہایت ہی امید افزا تھے۔ مولانا سید اسعد مدنی مدظلہ نے ہمیں مطلع کیا کہ الحاج مولانا محمد اسماعیل صاحب کو اس فن میں خاص مہارت ہے اور ساتھ ہی آپ نے مولانا کو لکھ دیا کہ وہ مناظرہ یادگیر میں شرکت فرمائیں۔ اسی طرح مولانا محمد سلیم صاحب نے مولانا ابو مسعود قمر بنارسی صاحب، مولانا محمد داؤد صاحب راز ناظم اعلیٰ آل انڈیا اہل حدیث کانفرنس دہلی کو مناظرہ میں شرکت کے لئے رضامند فرمایا۔ جس کے لئے ہم حضرت مولانا اسعد مدنی صاحب مدظلہ اور مولانا محمد سلیم صاحب کے خاص طور پر مشکور ہیں اور حقیقتاً ان دونوں بزرگوں کی صحیح رہنمائی کے باعث ہمیں اس مناظرہ میں عظیم الشان فتح نصیب ہوئی۔
الحاج مولانا سید محمد اسماعیل صاحب صدر جمعیت علماء اڑیسہ تینوں عنوانات پر اہل سنت