بھیجا جاتا ہے۔ اس غرض سے نہیں بھیجا جاتا کہ وہ کسی دوسرے رسول کا مطیع اور تابع ہو اور آیت ’’ومن یطع اﷲ والرسول‘‘} میں مطیعوں کا ذکر ہے اور مطیع کسی بھی صورت میں نبی اور رسول نہیںہوتا۔
۱۰… اگر اس آیت کے تحت امت محمدیہ میں نبی اور رسول آتے رہیں تو ظاہر ہے کہ ان کی اطاعت اور پیروی بھی امت کے لئے ضروری ہوجائے گی۔ حالانکہ اس امت کے لئے اس آیت میں صرف ایک رسول کی اطاعت ہی کا ذکر کیاگیا ہے۔ زیادہ سے زیادہ اس آیت سے یہ استدلال کیا جاسکتا ہے کہ امت محمدیہ کے افراد کو بطور انعام برکات اور فیوض نبوت تو مل سکتے ہیں جن کی اطاعت کے لئے امت مکلف نہیں ہے۔ لیکن منصب نبوت حاصل نہیں ہوسکتا۔ جس کی اطاعت ضروری ہو جائے۔ اگر قادیانی امت، فیوض اور منصب میں کچھ فرق نہیں کرسکتی تو یہ ان کے فہم کا قصور ہے۔ ورنہ حقیقت یہی ہے کہ اﷲتعالیٰ نے امت مسلمہ کا مطاع صرف رسول اﷲﷺ کو ہی مقرر فرمایا ہے اور آپؐ ہی کو تاقیامت اس امت کے لئے مکمل اسوۂ حسنہ قرار دیا ہے۔ پس آپؐ کے بعد نہ کوئی مطاع ہوسکتا ہے اور نہ اسوۂ حسنہ۔ لہٰذا اس آیت سے اجرائے نبوت ثابت کرنا باطل ہے۔
۱۱… آنحضرتﷺ سے بھی یہی ثابت ہے کہ اس آیت سے مراد دنیا میں اور سب سے بڑھ کر آخرت میں انعامات میں معیت ہے۔
۱… چنانچہ حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ فرمایا میں نے رسول اﷲﷺ کو فرماتے سنا کہ جب کوئی نبی بیمار ہوتا ہے تو اسے دنیا اور آخرت میں اختیار دیا جاتا ہے اور جس بیماری سے آپ نے وفات پائی آپ کو گلا بیٹھنے کی سخت تکلیف ہوگئی۔ سو میں نے آپؐ کو کہتے سنا ’’مع الذین انعم اﷲ علیہم من النبیین والصدیقین والشہداء والصالحین‘‘ سو میں نے جان لیا کہ آپﷺ کو اختیار دیاگیا ہے۔ (بخاری ج۲ ص۶۶۰، کتاب التفسیر سورۃ النسائ)
حضرت عائشہؓ صدیقہ نے اس حدیث سے سمجھا کہ آپﷺ نے آخرت میں انبیاء وصدیقین کی معیت کو اختیار کر لیا۔ معلوم ہوا کہ اس آیت میں نبی بننے کا ذکر نہیں۔ کیونکہ نبی تو آپ بن چکے تھے۔ آپﷺ کی تمنا آخرت کی معیت کے متعلق تھی۔۲… ’’التاجر الصدوق الامین مع النبیین والصدیقین والشہداء والصالحین (ترمذی ج۱ ص۲۲۹، کتاب البیع)‘‘ حضور اکرمﷺ نے فرمایا کہ سچا اور امانت دار تاجر نبیوں، صدیقوں، شہیدوں اور صالحین کے ساتھ ہوگا۔ یہ مراد نہیں کہ ہر سچا اور