کیا اس میں آنحضرتﷺ کا کمال فیضان ثابت نہ ہوگا کہ عورت جسے کبھی نبوت حاصل نہ ہوئی وہ بھی آپؐ کے طفیل نبوت حاصل کرتی ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ نبوت ورسالت اطاعت کاملہ کا نتیجہ نہیں۔
۶… اگر اس آیت سے تسلسل نبوت ثابت ہوتا ہے تو کیوں ممکن نہیں کہ اطاعت رسول کے نتیجہ میں کسی شخص کو مستقل شریعت عطاء کی جائے؟
۷… آیت میں اطاعت کرنے والوں کے انبیائ، صدیقین، شہداء اور صالحین کے ساتھ انعامات میں شرکت کرنے کا ذکر ہے۔ قطع نظر اس کے کہ ان کا اپنا درجہ کیا ہوگا اور کیا نہ ہوگا۔ قرآن مجید نے مؤمنوں کے لئے ’’اولئک من الصالحین (آل عمران:۱۱۳)‘‘ کہہ کر صالحین کا اور ’’ہم الصدیقون والشہداء عند ربہم (الحدید:۱۹)‘‘ کہہ کر صدیقین اور شہداء کا درجہ پیش کیا ہے۔ نبوت کا درجہ پیش نہیں کیا۔ ہاں انبیاء کے ساتھ انعامات میں شرکت ایک ادنیٰ مؤمن کو بھی ہوجاتی ہے۔ جس طرح آنحضرتﷺ کی زندگی میں ظاہری کامیابیوں میں تمام مدارج کے مؤمنین شریک ہوئے اسی طرح روحانی نعماء میں تمام شریک ہوئے۔ اس شرکت ومعیت سے سب کا نبی، صدیق یا شہید ہونا ثابت نہیں ہوتا۔ اگر بادشاہ کے ساتھ ایک ہی میز پر وزرائ، امراء اور عام معززین شریک طعام ہو جائیں تو اس سے سب کا بادشاہ، وزیر یا حاکم بن جانا لازم نہیں آتا۔
۸… قرآن کریم اور حدیث سے بالصراحت یہ بات ثابت ہے اور امت مسلمہ کا اس پر اتفاق ہے کہ نبوت موہبت سے ہے۔ اکتساب سے نہیں۔ یعنی کوئی شخص کوشش کر کے نبوت کا منصب حاصل نہیں کر سکتا۔ بلکہ اﷲتعالیٰ اپنی موہبت سے جس شخص کو چاہے اور جب چاہے اس منصب پر کھڑا کرتا ہے۔ چنانچہ قرآن کریم نے کفار کے اس مطالبہ پر کہ ’’لن نؤمن حتیٰ نؤتیٰ مثل ما اوتی رسل اﷲ‘‘ ہم ایمان نہیں لائیں گے جب تک کہ ہم کو بھی اس کا مثل نہ دیا جائے۔ جواب میں فرمایا: ’’اﷲ اعلم حیث یجعل رسالتہ (الانعام:۱۲۵)‘‘ {کہ اﷲ خوب جانتا ہے کہ کسے نبوت کے منصب پر قائم فرمائے۔}
پس نبوت کا اکتساب یا کسی کی پیروی سے حاصل ہونا قرآن مجید کی تعلیم اور اس آیت کے صاف مفہوم کے خلاف ہے۔
۹… اس آیت سے چار آیات پہلے انبیاء رسول کے متعلق فرمایا ہے۔ ’’وما ارسلنا من رسول الا لیطاع باذن اﷲ (النسائ:۳۴)‘‘ {یعنی ہر ایک رسول مطاع اور امام بنانے کے لئے