فاؤلئک مع الذین انعم اﷲ علیہم من النبیین والصدیقین والشہداء والصالحین وحسن اؤلئک رفیقاً (النسائ:۶۹)‘‘ {یعنی جو اﷲ اور رسولﷺ کی اطاعت کرتا ہے تو یہ ان کے ساتھ ہوں گے۔ جن پر اﷲ نے انعام کیا۔ یعنی نبیوں، صدیقوں، شہیدوں اور صالح لوگوں کے ساتھ اور یہ اچھے ساتھی ہیں۔} یہاں صاف ’’مع الذین‘‘ کا لفظ موجود ہے۔ یعنی اطاعت سے نبیوں اور صدیقوں وغیرہ کی معیت ملتی ہے اور آیت کے آخر پر پھر دہرایا کہ ’’وحسن اولئک رفیقاً‘‘ یہ کیسے اچھے رفیق ہیں تو کسی کی معیت سے وہی چیز نہیں بن جاتی۔ یوں تو اﷲتعالیٰ کی معیت مؤمنوں کو حاصل ہے۔ مگر وہ خدا نہیں بن جاتے۔
۲… اگر بننے کا ذکر ہوتا تو بجائے ’’مع الذین‘‘ کے یوں فرمایا جاتا ہے کہ ’’فاولئک ہم الذین انعم اﷲ علیہم‘‘ کہ جو اﷲ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے تو یہی وہ لوگ ہیں جن پر اﷲ نے انعام کیا۔ جیسا کہ دوسری جگہ بننے کے سلسلے میں فرمایا ’’والذین اٰمنوا باﷲ ورسولہ اولئک ہم الصدیقون والشہداء عند ربہم (الحدید)‘‘ {کہ جو اﷲ اور اس کے رسولوں پر ایمان لائے تو یہی لوگ اپنے رب کے نزدیک صدیق اور شہید ہیں۔ غرض مؤمن کے صدیق، شہید، صالح بننے کی شہادت تو قرآن مجید میں موجود ہے۔ مگر نبی بننے کا کہیں ذکر نہیں۔}
۳… اگر اطاعت کاملہ کا نتیجہ نبوت ہے تو اکابر صحابہؓ کو یہ منصب ضرور حاصل ہوتا۔ جنہیں ’’رضی اﷲ عنہم ورضوا عنہ‘‘ کا خطاب ملا اور یہی رضائے الٰہی سب سے بڑی نعمت ہے۔ چنانچہ فرمایا: ’’ورضوان من اﷲ اکبر (التوبہ:۷۲)‘‘
۴… اگر اطاعت کے نتیجہ میں نبوت ملتی تو حضرت عمرؓ ضرور نبی ہو جاتے۔ جن کے متعلق آنحضرتﷺ نے فرمایا: ’’لوکان بعدی نبی لکان عمر (مشکوٰۃ)‘‘ حضرت علیؓ ضرور نبی ہو جاتے جن کے متعلق فرمایا: ’’انت منی بمنزلۃ ہارون (ترمذی ج۲ ص۲۰۹)‘‘
۵… اگر نبوت اطاعت کاملہ کا نتیجہ ہے تو عورت کو بھی نبوت ملنی چاہئے۔ کیونکہ اعمال صالحہ کے نتائج میں مرد وعورت کو یکساں حیثیت حاصل ہے۔ جیسے فرمایا: ’’من عمل صالحاً من ذکرٍ اوانثٰی وھو مؤمن فلنحیینہ حیوٰۃ طیبۃ ولنجزینہم اجرہم باحسن ماکانوا یعملون (النحل:۹۷)‘‘ {کہ جو کوئی اچھا عمل کرتا ہے مرد ہو یا عورت اور وہ مؤمن ہے تو ہم یقینا اسے ایک پاک زندگی میں زندہ رکھیں گے اور ہم یقینا انہیں ان کے بہترین اعمال جو وہ کرتے تھے اجردیں گے۔}