نظریاتی اور جغرافیائی سرحدوں کو ختم کرنے کے درپے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو دو پاکستان، دو دستور، دو وزرائے اعظم اور دو بجٹ جیسے تباہ کن منصوبوں پر عمل پیرا ہیں۔
(روزنامہ جسارت کراچی مورخہ ۲۴؍مارچ ۱۹۷۱ئ)
کراچی میں قومی اسمبلی کے پانچ سیاسی جماعتوں کے نمائندوں اور آزاد ارکان نے ایک اجلاس میں مطالبہ کیا کہ قادیانی اقلیت ملک میں سیاسی بحران پیدا کر رہی ہے۔ ایم ایم۔احمد اس سازش کا سرغنہ ہے۔ اس نے ملک کی معیشت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ اسے برطرف کیا جائے اور اس پر غداری اور وطن دشمنی کے الزام میں مقدمہ چلایا جائے۔
پاکستان کی تباہی اور مشرقی پاکستان کے سقوط کا جوالمیہ رونما ہوا ہے وہ اگر سازش ہے تو اس سازش کا حقیقی منبع اسلام آباد کی بیوروکریسی تھی جس کا طاقتور ترجمان ایم ایم احمد تھا۔ جس کے مذہبی عقیدے میں سامراج کی وفاداری اور مسلمانوں سے دشمنی بطور اساسی عقیدہ کے شامل ہے اور جس کے مرکز نے ۱۹۴۵ء میں یہ پالیسی وضع کی تھی کہ اگر یہ ملک تقسیم بھی ہو جائے تو اسے دوبارہ متحد کیا جائے گا۔
جس گروہ کے موجودہ امام کا پاکستان کے مسلمانوں کے بارے میں جذبات کا یہ عالم ہو: ’’تم لومڑی کا لبادہ اوڑھ کر اور گیدڑ کا لبادہ پہن کر نکلتے ہو اور چیختے چنگھاڑتے ہو اور سمجھتے ہو کہ ہم تم سے مرعوب ہو جائیں گے۔ ہمیں تو اﷲتعالیٰ نے شیر سے بڑھ کر جرأت عطاء فرمائی ہے۔ شیر کی دھاڑ سے میلوں تک بزدل جانور کانپ اٹھتے ہیں۔‘‘ (آزاد کشمیر کی قرارداد پر ایک تبصرہ ص۱۰تا۱۶)
اس گروہ سے مسلمان ہرگز عافیت نہیں پاسکتے۔
قادیانیوں کے ان اثرات اور پراسرار سازش کے پیش نظریہ بات اب بلاخوف تردید کہی جاسکتی ہے کہ قادیانی نہ صرف پاکستان کے مسلمانوں کے لئے بلکہ عالم اسلام کے سارے مسلمانوں کے لئے عظیم خطرہ ہیں۔ اگر اس خطرہ کا بروقت اور فوری سدباب نہ کیاگیا تو پھر یہ خطرہ حقیقت کا روپ دھار کر مسلمانوں کو ایک ایسے عظیم المیہ سے دوچار کرے گا کہ جس کے سامنے بغداد، غرناطہ اور ڈھاکہ کے المیے گرد ہوکر رہ جائیں۔
اس وقت پاکستان کے مسلمان جس پیچیدہ صورتحال سے دوچار ہیں وہ کچھ اس قسم کی ہے۔ ایک طرف تو پاکستان عالمی طاقتوں کی سازشوں کی آماجگاہ بن گیا ہے۔ روس، بھارت کے