ذریعے حکومتوں پر قبضہ کرنے کی کوشش نہ کریں ہم اسلام کی ساری تعلیم کو جاری نہیں کر سکتے۔‘‘
(الفضل قادیان مورخہ ۵؍فروری ۱۹۳۷ئ)
اسی خلیفہ کے ایک دوسرے خطبہ کے الفاظ یہ ہیں: ’’قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے۔ عام مؤمن دو مخالفوں پر بھاری ہوتا ہے اور اگر اس سے ترقی کرے تو… صحابہ کے طرز عمل سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان میں سے ایک ایک نے ہزار کا مقابلہ کیا۔ ہماری جماعت مردم شماری کی رو سے پنجاب میں ۵۶ہزار ہے۔ گویہ بالکل غلط ہے اور صرف اسی ضلع گورداسپور میں تیس ہزار افراد رہتے ہیں۔ تب بھی ۷۵،۷۶ہزار آدمی بن جاتے ہیں اور ایک احمدی سو کے مقابلے میں رکھا جائے تو ہم ۷۵لاکھ کا مقابلہ کر سکتے ہیں اور اگر ایک ہزار کے مقابلے میں ہمارا ایک آدمی ہو تو ہم ساڑھے سات کروڑ کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔ اتنی ہی تعداد دنیا کے مسلمانوں کی ہے۔ پس سارے مسلمان مل کر بھی جسمانی طور پر ہمیں نقصان نہیں پہنچا سکتے اور اﷲ کے فضل سے ہم ان پر بھاری ہیں۔ پھر آج کل جسمانی مقابلہ تو ہے ہی نہیں۔ اس لئے اس لحاظ سے بھی ہمیں فکر کرنے کی ضرورت نہیں۔‘‘ (الفضل قادیان مورخہ ۲۱؍جون ۱۹۳۲ئ)
یہی خلیفہ صاحب پر لکھتے ہیں: ’’پس نہیں معلوم ہمیں کب خدا کی طرف سے دنیا کا چارج سپرد کیا جاتا ہے۔ ہمیں اپنی طرف سے تیار ہونا چاہئے کہ دنیا کو سنبھال سکیں۔ تم نے دنیا کو ادھر نہیں لانا۔ بلکہ لانے والا خدا ہے اس لئے تمہیں آنے والے کا معلم بننے کے لئے ابھی سے کوشش کرنی چاہئے۔ (خطبہ خلیفہ محمود الفضل قادیان مورخہ ۲؍مارچ ۱۹۲۲ئ)
جو شخص ہماری فتح کا قائل نہ ہو گا تو صاف سمجھا جائے گا کہ اس کو والد الحرام بننے کا شوق ہے۔‘‘ (انوار الاسلام ص۳۱)
ان اقتباسات سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اس گروہ کے کیا سیاسی عزائم ہیں اور مسلمانوں کے خلاف ان کے جذبات کا کیا عالم ہے۔ حالانکہ بظاہر یہ ایک مذہبی گروہ ہے اور ملک میں یا بیرون ملک اس کی سیاسی سرگرمیاں بھی نظر نہیں آتیں۔ یہ گروہ زیرزمین رہ کر دشمنان اسلام کے ساتھ رشتے جوڑ کر اور ان کے ایجنٹ کی حیثیت سے مسلمانوں کو تباہ کرنے کی خوفناک سازشوں میں مصروف ہے۔ اگر یہ محض مذہبی گروہ ہوتا تو اس قدر پراسرار نہ ہوتا اور اگر یہ محض سیاسی جماعت یا تحریک ہوتا تو اسے سازشی طور طریقے اور فسطائی طرز عمل اور خفیہ اور زیر زمین سرگرمیوں میں ملوث ہونے کی ضرورت نہ تھی۔