سیاسی اثر ونفوذ
قادیانی امت کے سیاسی اثر ونفوذ کا آغاز عین اس تاریخ سے ہوا جب سرفضل حسین مرحوم کی تائید اور سفارش سے سرظفر اﷲ خاں کو وائسرائے کی ایگزیکٹو کونسل میں مسلمانوں کے نمائندے کی حیثیت سے نامزد کیاگیا۔ مسلمانوں کو کافر کہنے والا شخص اور خود اپنے محسن سرفضل حسین مرحوم کی نماز جنازہ پڑھنے سے گریز کرنے والا شخص مسلمانوں کا نمائندہ بن گیا۔
اگر یہ شخص ذرا بھی دیانتدار ہوتا تو صاف کہہ دیتا کہ میں تو مسلمانوں کے معصوم بچوں تک کی نماز جنازہ پڑھنا گورا نہیں کرتا۔ میرے نزدیک سب مسلمان کافر ہیں اور میں ان کافروں کی نمائندگی کیسے کر سکتا ہوں۔ مگر اس شخص نے اپنی اس پوزیشن سے ناجائز فائدے حاصل کئے۔ اپنے اثرورسوخ سے کام لے کر مختلف محکموں میں مسلمانوں کے بجائے قادیانیوں کو بھرتی کرنے لگا اور اس طرح مسلمانوں کے اس نام نہاد نمائندے نے مسلمانوں کے حقوق پر ڈاکہ ڈالا۔ جب ملک تقسیم ہوا تو باوجود اس بات کے کہ سرظفر اﷲ خاں نہ تو مسلم لیگ میں شامل تھا نہ اس کا قائداعظم مرحوم کی ذات سے کوئی تعلق تھا اور نہ تحریک پاکستان میں اس کا یا اس گروہ کے اکابر واصاغر میں سے کسی کا کوئی حصہ تھا۔ بلکہ الٹا ان عزائم کا برملا اظہار واعلان کیاگیا کہ اگر پاکستان بن گیا تو قادیانی گروہ اسے دوبارہ متحد کرنے کی کوشش کرے گا۔ حقیقت میں تقسیم سے قبل مسلم لیگ کے خلاف سازشوں کا مرکز بنا رہا تھا۔ ۱۹۴۵ء کے انتخابات میں قادیانیوں نے مسلم لیگ کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ پھر جب یہی سرظفر اﷲ خاں باؤنڈری کمیشن کے سامنے پیش ہوا تو بقول جسٹس منیر سرظفر اﷲ کے ساتھ قادیانیوں کے وکیل نے کمیشن کے سامنے اپنا الگ کیس پیش کیا۔ جس کے نتیجے میں پٹھان کوٹ کا ضلع پاکستان سے کٹ گیا اور کشمیر کا مسئلہ الجھ گیا۔
ان ساری باتوں کے باوجود سرظفر اﷲ کو مسلمانوں کو نوزائدہ مملکت میں بڑے پراسرار طریقے پر وزیرخارجہ بنادیاگیا۔ یہ بات واقعتا ایک معمہ ہے کہ ایک شخص تحریک آزادی کی کسی جماعت میں شامل نہیں ہوتا۔ ساری عمر برطانیہ کی نوکری کرتارہتا ہے اور ملک کی ہر آزادی پسند تحریک کی مخالفت کرتا ہے۔ مگر جب آزادی کی صبح طلوع ہوتی ہے تو وہی شخص انقلاب کے سارے فوائد خاص اپنے لئے سمیٹتا نظر آتا ہے اور تحریک آزادی کے تمام قائدین اس شخص کے جرائم کو نظرانداز کر کے اسے اپنے اندر جذب کر لیتے ہیں۔
تقسیم ملک سے پہلے قادیانی گروہ کی سیاسی حکمت عملی یہ تھی کہ انگریزوں اور ہندوؤں کے ساتھ سازباز کر کے مسلمانوں کو پہلے معاشی اور سیاسی حیثیت سے کمزور کیا جائے۔ پھر جب