مؤمن کی روح آخری اور بھرپور فتح پر یقین رکھتی ہے اور امت کی اجماعی روح کبھی شکست تسلیم نہیں کرتی اور ہرحال میں ناقابل تسخیر رہتی ہے۔
لیکن چونکہ ان عقائد وتصورات کی یہ تحریکی خصوصیت مرزاقادیانی اور ان کی محسن گورنمنٹ کی نگاہ میں ناپسندیدہ تھی۔ اس لئے ان پر حملہ کر کے خود مسلمانوں کے ساتھ بحث ومناظرہ کا ایک اور محاذ کھول دیا۔
۲… نبوت کے اعلان کے ساتھ ہی مرزاقادیانی نے امت کے اندر رہتے ہوئے اپنی ایک الگ امت کی تشکیل وتنظیم کا کام شروع کر دیا۔ اس نئی ابھرتی ہوئی امت نے امت مسلمہ کے افراد کے ساتھ زندگی کے ہر دائرہ میں کشمکش کا آغاز کردیا۔ عقائد کے میدان میں نظری بحثوں کا لامتناہی سلسلہ چھیڑ دیا۔ معاشرتی اور مذہبی دائرہ میں مسلمانوں کو کافر، جہنمی، ذریۃ البغایا یعنی کنجریوں کی اولاد جیسے غیرمہذب خطابات سے نوازا گیا اور ان سے کٹ کر الگ ہوگئے۔ مگر سیاسی اور معاشی میدانوں میں ان کے اندر گھس کر ان کے مفادات پر ڈاکہ ڈالنا شروع کر دیا اور مسلمانوں ہی کے وسائل سے کام لے کر انہیں امت مسلمہ سے کاٹ کر قادیانی امت میں شامل کرنے لگے۔
۳… مرزاقادیانی نے ایک طرف تو مسلمانوں کے خلاف محاذ آرائی کی اور انگریزوں کے مقابلے میں انہیں اپنا دشمن گردانا اور دوسری طرف اپنے عقیدۂ نبوت کو وسعت دے کر ہندوؤں کے کرشن، رامچندر، بدھ، جین اور گرونانک وغیرہ کو پیغمبروں کی صف میں شامل کر ڈالا۔ اس سے قادیانیوں نے مقامی غیرمسلم آبادی کی ہمدردیاں اور تائید حاصل کر لی۔ چنانچہ پنڈت نہرو جب لاہور آیا تو قادیانیوں نے اس کا زوردار استقبال کیا۔ اس سے پنڈت نہرو اور ڈاکٹر شنکرداس جیسے ہندو اکابرین متأثر ہوئے اور انہیں یہ کہنا پڑا کہ: ’’ہمارے نقطہ نظر سے سب سے زیادہ پسندیدہ عنصر قادیانی ہیں۔ کیونکہ ان کا نبی بھی دیسی ہے۔ ان کے مقدس مقامات بھی اس دیس میں واقع ہیں۔‘‘
(اخبار بندے ماترم، ماہ اپریل ۱۹۳۲ئ)
مرزاقادیانی کے ان اقدامات کا سو فیصدی فائدہ برطانیہ کو پہنچا۔ مسلمانوں کو حکومت، عیسائی مشن، آریا سماج اور قادیانی امت سے بیک وقت چار محاذوں پر لڑائی لڑنی پڑی اور وہ بھی اس عالم میں کہ مسلمان برطانوی استعمار کی ظالمانہ گرفت میں بے بس تھے اور ان سب گروہوں کو مسلمانوں کے خلاف ہر قسم کی جارحانہ کاروائی کرنے کی نہ صرف کھلی چھٹی تھی۔ بلکہ ان کی مکمل سرپرستی اور حوصلہ افزائی بھی کی جارہی تھی۔