یہ ہیں۔ مولوی یار محمد قادیانی، احمد نور کابلی قادیانی، عبداللطیف قادیانی، عبداﷲ تیماپوری قادیانی، چراغ دین جموی قادیانی، غلام محمد قادیانی، (بحوالہ الیاس برنی) قادیانی مذہب ص۴۰۔۸۳۷) نہ معلوم قادیان کی نبوت ساز ایجنسی نے ان ’’متنبیوں‘‘ کو کیوں فراموش کر دیا ہے) اور مرزاقادیانی خود محدثیت، مجددیت اور ظلیت اور بروزیت کے مقامات سے ترقی کر کے خاکم بدہن نبیﷺ کی ذات اقدس کے مقام ومرتبہ کے دعویدار بن گئے۔ کس جسارت سے اعلان کرتے ہیں: ’’محمد رسول اﷲ والذین معہ اشداء علی الکفار‘‘ کے الہام سے مراد صرف میں ہوں۔ محمد رسول اﷲ خدا نے مجھے کہا ہے۔‘‘ (الفضل قادیان مورخہ ۱۵؍جولائی ۱۹۱۵ئ)
اس گروہ نے قرآن کی من مانی تاویل کر کے صرف جہاد اور ختم نبوت کے عقیدوں پر ہاتھ صاف نہیں کیا۔ اس کے ساتھ یہ بات بھی ان کے منصوبہ میں شامل تھی کہ خود قرآن کی تحریف بھی کر ڈالی جائے۔ چنانچہ مرزاقادیانی نے اس طرف ان الفاظ میں اشارہ کیا تھا: ’’خدا کا کلام مجھ پر اس قدر نازل ہوا ہے کہ اگر وہ تمام لکھا جائے تو بیس جزو سے کم نہ ہوگا۔‘‘
(حقیقت الوحی ص۳۹۱، خزائن ج۲۲ ص۴۰۷)
مرزاقادیانی کی اس بات کی تفسیر ایک قادیانی مبلغ نے ان الفاظ میں کی: ’’اگر مسیح موعود عین محمد ہیں اور آپ کی بعثت رسول اﷲﷺ ہی کی بعثت ثانی ہے تو حضرت مسیح موعود کی وحی بھی عین قرآن ہونی چاہئے اور جو وحی بھی آپ پر نازل ہو وہ قرآن جدید، اور قرآن کو خاتم الکتاب کہا گیا تھا تو اس کا مطلب فقط اس قدر مانا جائے گا کہ اس کتاب کی مہر سے آئندہ خدا کی کتابیں یا دوسرے لفظوں میں قرآن کے مزید حصے نازل ہوا کریں گے اور کوئی وجہ نہیں جو مجموعہ میاں صاحب حضرت مسیح موعود کے الہامات کا اب شائع کرائیں گے۔ اس کا نام بجائے البشریٰ کے قرآن جدید نہ رکھا جائے یا قرآن ہی نام رکھ دیا جائے۔ کیونکہ یہ وہی قرآن ہے جو پیرایۂ جدید میں جلوہ گر ہوا ہے… مسیح موعود کی وحی جب عین قرآن ہے جس کا کوئی محمودی انکار نہیں کر سکتا تو پھر اب جو قرآن محمودی حضرات پیش فرمائیں گے۔ ضرور ہے کہ وہ پرانے قرآن کا جو رسول اﷲﷺ پر نازل ہوا اور نئے قرآن کا جو حضرت مسیح موعود یا دوسرے لفظوں میں محمد رسولﷺ کی بعثت ثانی میں نازل ہوا۔ دونوں کا مجموعہ ہونا چاہئے۔ گویا عیسائیوں کی طرح عہدنامہ قدیم کے ساتھ عہد نامہ جدید بھی شامل ہوگا۔ تب یہ قدیم وجدید مل کر وہ قرآن بنے گا۔ جس کے لئے میاںصاحب فرماتے ہیں کہ وہ ’’یہدی من یشائ‘‘ والا قرآن ہوگا۔‘‘
(پیغام صلح لاہور مورخہ ۱۱؍جون ۱۹۳۹ئ)