انفرادی ہو یا اجتماعی، حاکم مطلق اور الہ اور معبود ہے اور ہر قسم کی اطاعت وبندگی اور عبادت وعبودیت کا صرف وہی اکیلا سزاوار ہے۔ اﷲتعالیٰ کو صرف تکوینی دائرہ میں معبود اور الہ تسلیم کرنا یا زندگی کے چند خاص گوشوں میں اس کی بندگی کرنا اور چند دوسرے گوشوں میں کسی دوسرے کی اطاعت ووفاداری کا دم بھرنا یہ مسلمانوں کا تصور توحید نہیں اور نہ اس تصور کا اسلام سے کوئی واسطہ ہے۔ یہ عقیدہ عیسائیوں اور یہودیوں کے ہاں قابل قبول ہوسکتا ہے۔ مگر مسلمانوں کے لئے خدا کو زندگی کے ایک دائرہ میں معبود ماننا اور چند دوسرے دائروں میں اسے بے دخل کردینا یا اس کے ساتھ کسی دوسرے کو شریک کرنا بدترین جرم ہے۔ اس سے توحید کے عقیدہ کا نہ صرف حلیہ بگڑ کر رہ جاتا ہے۔ بلکہ یہ عقیدہ خود مسلمانوں کے لئے بھی سم قاتل ہے۔ جس طرح بجلی کی تار برقی رو کے ختم ہو جانے کے بعد بے کار ہو جاتی ہے۔ بالکل اسی طرح عقیدۂ توحید کے بگڑ جانے سے مسلمانوں کا اجتماعی وجود بھی ناکارہ ہو کر رہ جاتا ہے۔ مسلمانوں کے لئے ہر قسم کی حاکمیت (Soverieanty) کا مستحق صرف اﷲتعالیٰ ہی ہے۔ اگر اس حاکمیت کے حصے بخرے کر کے کچھ کا مستحق اﷲ میاں کو اور کچھ کا مستحق کسی اور صاحب اقتدار ہستی کو قرار دیا جائے تو یہ مسلمانوں کے نزدیک سخت اشتعال انگیز ہو گا۔ مرزاقادیانی نے مسلمانوں کے تصور توحید کا حلیہ بگاڑنے کے لئے اﷲتعالیٰ کی صفت حاکمیت میں برطانوی استعمار کو شریک ٹھہرا کر برملا اعلان کیا کہ: ’’میں سچ سچ کہتا ہوں کہ محسن کی بدخواہی کرنا ایک حرامی اور بدکار آدمی کا کام ہے۔ سو میرا مذہب جس کو میں باربار ظاہر کرتا ہوں۔ یہی ہے کہ اسلام کے دو حصے ہیں۔ ایک یہ کہ خداتعالیٰ کی اطاعت کرے… دوسرے اس سلطنت کی۔ جس نے امن قائم کیا۔ جس نے ظالموں کے ہاتھ سے اپنے سایہ میں ہمیں پناہ دی ہو۔ سو وہ سلطنت حکومت برطانیہ کی ہے… سو اگر ہم گورنمنٹ برطانیہ سے سرکشی کریں تو گویا اسلام اور خدا اور رسولﷺ سے سرکشی کرتے ہیں۔‘‘
(شہادۃ القرآن ص ج،د، خزائن ج۶ ص۳۸۰،۳۸۱)
مسلمانوں سے اپنے اختلافات کی نوعیت کو واضح کرتے ہوئے مرزابشیرالدین محمود لکھتے ہیں کہ: ’’حضرت مسیح موعود نے فرمایا کہ ان کا (یعنی مسلمانوں کا) اسلام اور ہے اور ہمارا اور۔ ان کا خدا اور ہے اور ہمارا اور۔ ہمارا حج اور ہے اور ان کا اور، اور اسی طرح ان سے ہر بات میں اختلاف ہے۔‘‘ (الفضل ج۵ نمبر۱۰ ص۸، مورخہ ۲۱؍اگست ۱۹۱۸ئ)
اﷲتعالیٰ کو انسانی زندگی کے اختیار اور سیاسی دائرے میں حاکم تسلیم کرنا اور اس کے قانون کے علاوہ کسی قانون کو تسلیم نہ کرنا ہر دور کے مستبد حکمرانوں، دین سے بیزار لوگوں اور ملحدین