کتابوں اور اخباروں کے پڑھنے سے یہ اندیشہ دل میں پیدا ہوا کہ مبادا مسلمانوں کے دلوں میں جو ایک جوش رکھنے والی قوم ہے۔ ان کلمات کا کوئی سخت اشتعال دینے والا اثر پیدا ہو تب میں نے ان جوشوں کو ٹھنڈا کرنے کے لئے صحیح اور پاک نیت سے یہی مناسب سمجھا اور عام جوش کو دبانے کے لئے حکمت عملی یہی ہے کہ ان تحریرات کا کسی قدر سختی سے جواب دیا جائے۔ تاکہ سریع الغضب کے جوش فرو ہوجائیں اور ملک میں کوئی بدامنی پیدا نہ ہو۔ تب میں نے بمقابل ایسی کتابوں کے جن میں کمال سختی سے بدزبانی کی گئی تھی۔ چند ایسی کتابیں لکھیں جن میں بالمقابل سختی تھی۔ کیونکہ میرے کانشنس (ضمیر) نے قطعی طور پر مجھے فتویٰ دیا کہ اسلام میں بہت سے وحشیانہ جوش رکھنے والے آدمی موجود ہیں۔ ان کے غیض وغضب کی آگ بجھانے کے لئے یہ طریق کافی ہوگا… مجھ سے پادریوں کے مقابل پر جو کچھ وقوع میں آیا یہی ہے حکمت عملی سے بعض وحشی مسلمانوں کو خوش کیاگیا۔‘‘ (تریاق القلوب ص ج، خزائن ج۱۵ ص۴۹۰،۴۹۱)
۲… غالباً یہ بھی مرزاقادیانی ہی کا کارنامہ تھا کہ انہوں نے ہندوپاک کی پوری تاریخ میں عوامی سطح پر پہلی مرتبہ آریہ سماجیوں سے مذہبی مناظروں کا سلسلہ قائم کیا اور برطانوی سامراج کے سائے میں مسلمانوں کے لئے کشمکش کا ایک اور محاذ گرمادیا۔ جس کے نتیجے میں مقامی غیرمسلم آبادی کو حضورﷺ کی ذات اقدس پر حملہ کرنے کا موقع مل گیا اور مسلمانوں کو انگریزی حکومت، عیسائی مشنوں اور آریا سماجیوں سے بیک وقت کئی محاذوں پر مذہبی اور سیاسی جنگ لڑنی پڑی۔ اس سے مرزاقادیانی اور حکومت دونوں فائدے میں رہے۔ مرزاقادیانی کو مناظرہ بازی کے اس مظاہرے سے عوام میں اثر ونفوذ حاصل ہوا اور لوگ انہیں احترام کی نگاہ سے دیکھنے لگے۔ یہی بات آگے چل کر ان کے لئے دعویٰ نبوت کی راہ میں بڑی مددگار ثابت ہوئی اور انگریزوں کے لئے مسلمانوں اور ہندوؤں کے باہم مذہبی مناظرہ بازی میں الجھ جانے کے باعث ’’تقسیم کرو اور حکومت کرو‘‘ کی حکمت عملی پر عمل کرنا نسبتاً آسان ہو گیا۔
۳… مسلمانوں کے اس حسن ظن سے فائدہ اٹھا کر مرزاقادیانی نے ان کے اساسی عقائد پر بھرپور حملہ کر دیا۔ مسلمان انگریزوں کی شدید مستبدانہ گرفت میں تھے۔ مرزاقادیانی کے اس اچانک اور غیرمتوقع حملہ سے تڑپ کر رہ گئے۔ سب سے پہلے انہوں نے مسلمانوں کے تصور توحید پر ہاتھ صاف کیا۔ مسلمانوں کے نزدیک اﷲتعالیٰ کائنات کے صرف تکوینی دائرہ ہی میں خالق، مالک، مدبر اور حاکم وبادشاہ نہیں بلکہ اس کے ساتھ ساتھ وہ انسانی زندگی کے ہر دائرہ میں، خواہ معاش ومعاشرت کا دائرہ ہویا اخلاق وعبادت کا، صلح وجنگ کا دائرہ ہو یا تہذیب وسیاست کا،