اور تمہارے مخالفین جو مسلمان ہیں۔ ہزار درجہ ان سے انگریز بہتر ہیں۔‘‘
(مجموعہ اشتہارات ج۳ ص۵۸۴)
’’مگر ہم اﷲتعالیٰ کے فضل سے کہہ سکتے ہیں کہ جو کچھ بھی ہو جناب جماعت کو ملک معظم کا نہایت وفادار اور سچا خادم پائیں گے۔ چونکہ (یہ) وفاداری جماعت احمدیہ کی شرائط بیعت میں سے ایک شرط رکھی گئی ہے اور بانی ٔ سلسلہ نے اپنی جماعت کو وفاداری حکومت کی اس طرح باربار تاکید کی ہے کہ ان کی اسی کتابوں میں سے کوئی کتاب بھی نہیں جس میں اس کا ذکر نہ کیاگیا ہو۔‘‘ (الفضل قادیان مورخہ ۲۲؍دسمبر ۱۹۱۹ئ)
’’سو حضور عالی! ہماری فرمانبرداری مذہبی امور پر ہے۔ اس لئے اگر حکومت کی پالیسی سے قدرے اختلاف کریں۔ کبھی اس کے خلاف کھڑے نہیں ہوسکتے۔ کیونکہ اس صورت میں ہم خود اپنے عقیدے کی رو سے مجرم ہوں گے اور ہمارا ایمان خود حجت قائم کرے گا۔ حضور ملک معظم کی فرمانبرداری ہمارے لئے ایک مذہبی فرض ہے۔ جس میں سیاسی حقوق ملنے یا نہ ملنے کا کچھ دخل نہیں۔ جب تک ہمیں مذہبی آزادی حاصل ہے۔ ہم اپنی ہر چیز تاج برطانیہ پر نثار کرنے کے لئے تیار ہیں اور لوگوں کی دشمنی اور عداوت ہمیں اس سے باز نہیں رکھ سکتی۔‘‘ ان اقتباسات سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ تاج برطانیہ سے وابستگی اور اس کی اطاعت ووفاداری قادیانیوں کے نزدیک غیرمعمولی اہمیت کی حامل ہے۔ ان کے نبی نے تاج برطانیہ کی وفاداری کو اپنے مقاصد نبوت میں شامل کیا ہے۔ اپنے مریدوں سے اس کے لئے بیعت لی ہے اور اس وفاداری اور فرمانبرداری کو قادیانیوں کے لئے جزوایمان قرار دیا ہے اور ان کے بنیادی عقائد میں شامل کر کے ملک معظم کی اطاعت کو نماز اور روزہ کی طرح ایک مذہبی فریضہ کی حیثیت دے ڈالی ہے۔
یہ بات اگر محض کسی سیاسی لیڈر کی طرف سے ہوتی تو چنداں قابل التفات نہ تھی۔ مگر یہ بات وہ شخص کہہ رہا ہے جو اپنے آپ کو مدعی وحی والہام کہتا ہے۔ نبوت کا دعویدار بن کر روئے زمین کے تمام مسلمانوں کو کافر قرار دیتا ہے۔ لیکن انگریزوں کو جو مسلمانوں ہی کی طرح اس کی نبوت کا انکار کرتے ہیں۔ مسلمانوں سے ہزار درجہ بہتر سمجھتا ہے اور خود کو ان کے وفادار، فرمانبردار اور اطاعت گزار کی حیثیت سے پیش کرتا ہے۔
ظاہر ہے کہ جو شخص نبوت کے دعوے کے ساتھ انگریزی سامراج کی غیرمشروط وفاداری اور اطاعت کو ایک ’’مذہبی فرض‘‘ خیال کرتا ہے اور پھر اس کی تلقین وقتی اور عارضی نوعیت کی