دوسرے طریقے کے نتیجے میں نوابزادوں، صاحب بہادروں اور سرصاحبان پر مشتمل بیوروکریٹس کا ایک گروہ تیار کر کے مسلمانوں پر مسلط کر دیا گیا۔ اسی گروہ کی زیرسرپرستی مسلمانوں کی قوت مزاحمت کو کمزور کرنے کے لئے مسلمانوں کے اندر اقتصادی اور مذہبی میدانوں میں کشمکش کے متعدد محاذ کھول دئیے۔ پہلے مسلمانوں کی طاقت انگریزوں کے خلاف صرف ایک محاذ… محاذ آزادی… پر صرف ہورہی تھی اور وہ اسی ایک محاذ پر یکسو ہوکر انگریزوں سے لڑ رہے تھے۔ مگر بعد میں مستشرقین، منافقین اور بیورو کریٹس کی کوششوں سے ان کی قوت کئی دیگر محاذوں پر بٹ گئی اور مسلمان کمزور ہوکر برطانوی سامراج کی ظالمانہ گرفت میں آگئے۔
برطانوی سامراج کی اس پالیسی کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کا سہرا حقیقتاً آنجہانی مرزاغلام احمد قادیانی کے سر ہے۔ وہ خود اعتراف کرتے ہیں: ’’میرا اس درخواست سے جو حضور کی خدمت میں مع اسماء مریدین روانہ کرتا ہوں۔ مدعا یہ ہے کہ اگرچہ میں ان خدمات خاصہ کے لحاظ سے جو میں نے اور میرے بزرگوں نے محض صدق دل اور خلوص اور اخلاص اور جوش وفاداری سے سرکار انگریزی کی خوشنودی کے لئے ہے۔ عنایت خاص کا مستحق ہوں… صرف التماس ہے کہ سرکار دولت مدار ایسے خاندان کی نسبت جس کو پچاس سال کے متواتر تجربہ سے ایک وفادار اور جان نثار خاندان ثابت کر چکی ہے اور جس کی نسبت گورنمنٹ عالیہ کے معزز حکام نے ہمیشہ مستحکم رائے سے اپنی چٹھیات میں گواہی دی ہے کہ وہ قدیم سے سرکار انگریزی کے پہلے خیرخواہ اور خدمت گزار ہیں۔ ’’اس خود کاشتہ پودے‘‘ کی نسبت نہایت حزم واحتیاط اور تحقیق وتوجہ سے کام لے اور اپنے ماتحت حکام کو اشارہ فرمائے کہ وہ بھی اس خاندان کی ثابت شدہ وفاداری اور اخلاص کا لحاظ رکھ کر مجھے اور میری جماعت کو ایک خاص عنایت اور مہربانی کی نظر سے دیکھیں۔ ہمارے خاندان نے سرکار انگریزی کی راہ سے اپنے خون بہانے اور جان دینے سے فرق نہیں کیا اور نہ اب فرق ہے۔ لہٰذا ہمارا حق ہے کہ ہم خدمات گذشتہ کے لحاظ سے سرکار دولت مدار کی پوری عنایات اور خصوصی توجہ کی درخواست کریں۔ تاکہ ہر شخص بے وجہ ہماری آبروریزی کے لئے دلیری نہ کر سکے۔‘‘ (مجموعہ اشتہارات ج۳ ص۲۰تا۲۲)
مزید لکھتے ہیں: ’’میں دعویٰ سے کہتا ہوں کہ میں تمام مسلمانوں میں اوّل درجہ کا خیرخواہ گورنمنٹ انگریزی کا ہوں۔ کیونکہ مجھے تین باتوں نے خیرخواہی میں اوّل درجہ پر بنا دیا ہے۔ اوّل والد مرحوم، دوسرے گورنمنٹ کے احسانوں نے اور تیسرے خداوند تعالیٰ کے الہام نے۔‘‘
(تریاق القلوب ص۳۶۳، خزائن ج۱۵ ص۴۹۱)