اور رسالت… پوری امت اپنی زندگی کے لئے انہی سرچشموں کی محتاج ہے۔ اگر خدانخواستہ اس امت نے کسی وقت ان سرچشموں سے فیضل یاب ہونا ترک کر دیا تو بس دہی لمحہ اس کی مستقل بربادی اور موت کا ہوگا۔
اس امت کے دشمنوں نے ہر دور میں یہ کوشش کی ہے کہ کسی طرح اس کا تعلق ان دونوں سرچشموں سے منقطع ہو جائے۔ خواہ زمانۂ قدیم کے معتزلہ ہوںیا دور حاضر کے منکرین سنت، خواہ دور اوّل کے مسیلمہ کذاب اور طلیحہ ہوں یا اس دور کے غلام احمد قادیانی یا بہاء اﷲ ایرانی، ان سب کا ہدف حضورﷺ کی ذات اور قرآن ہی رہے ہیں۔ کسی نے قرآن کو حضور سرور کائناتﷺ سے الگ کر کے پڑھنے اور سمجھنے کی کوشش کی۔ تاکہ وہ اپنے باطل نظریات کو قرآن سے ثابت کر سکے اور کسی نے حضورﷺ کے مدمقابل کھڑے ہو کر قرآن کی من مانی تاویل اور تفسیر کے لئے مدعی وحی والہام ہونے کا اعلان کر دیا تاکہ وہ اپنے مخصوص عزائم کی تکمیل کے لئے قرآن کی تائید حاصل کر سکے۔
ہر دور کے مبتدعین کی یہ کوشش رہی ہے کہ قرآن سے حضورﷺ کی سنت اور آپؐ کے اسوہ کا تعلق منقطع کر دیا جائے۔ کیونکہ جب تک یہ تعلق برقرار ہے اس وقت تک قرآن کی من مانی تاویل کر کے نہ عوام الناس کو گمراہ کیا جاسکتا ہے اور نہ مسلمانوں کی قوت وطاقت کو توڑا جاسکتا ہے۔ جب برصغیر ہند وپاک میں برطانیہ قدم جمارہا تھا۔ تو اس نے اپنی راہ میں مسلمانوں ہی کو سب سے زیادہ مزاحم پایا تھا۔ انگریز نے بھی اس وقت مسلمانوں کی قوت کے اصلی منبع کی بالکل صحیح تشخیص کی تھی۔ ایک انگریز مفکر سرولیم میور نے واضح طور پر کہا تھا کہ برطانوی عملداری کی راہ میں دو رکاوٹیں ہیں۔ ایک محمد(ﷺ) کی تلوار اور دوسرے محمد (ﷺ) کا قرآن۔ چنانچہ اسلام اور اس کی قوت کو توڑنے اور اسے کمزور کرنے کے لئے مخالفین نے قرآن پاک اور حضور سرور کائناتﷺ کی ذات اقدس پر شدید حملے کئے۔ ان حملوں کے لئے بالعموم دو طریقے اختیار کئے گئے۔ ایک علمی تحقیق اور ریسرچ کے نام پر جھوٹے اور غلط پروپیگنڈے کا جس کی سرپرستی ملحد مستشرقین نے کی اور دوسرے امت کے اندر منافقین اور معاندین کی حوصلہ افزائی کا تاکہ ان کے ذریعہ امت میں انتشار پیدا کیا جائے۔ اس پالیسی کو خود حکومت نے اپنایا۔ علمی تحقیق وریسرچ کے نام پر کلامی فتنے کھڑے کئے گئے اور قرآن بلاسنت کی تحریک چلائی گئی۔