مجرم ہے۔ مسلم وہ شخص ہے جو اپنے آپ کو ایک اﷲ کے حوالہ کر دیتا ہے اور پوری زندگی اس کی مرضی کے مطابق گزارتا ہے۔ اس طرح وہ اﷲتعالیٰ کی رضا اور عطاء کا مستحق بن جاتا ہے۔ دوسری طرف مجرم ہے جو سرے سے ہی اﷲتعالیٰ کو تسلیم نہیں کرتا ہے۔ ہر قدم پر اس کی مخالفت اور اپنے نفس کی اتباع کرتا ہے۔ اس طرح یہ شخص اﷲتعالیٰ کے غضب کا مستحق بن جاتا ہے۔ اب اگر مرنے کے بعد دونوں کو ایک ہی مقام دیاجائے تو یہ حق تلفی نہیں ہوگی؟ یقینا یہ بات اﷲ جل شانہ کی شان کے خلاف ہے۔ عذاب جہنم کے دائمی ہونے پر صاحب مراسلہ نے سب سے بڑا اعتراض یہ کیا ہے کہ اگر عذاب جہنم کو دائمی تسلیم کیا جائے تو محدود اعمال کی غیرمحدود سزا دینا لازم آتا ہے اور یہ عدل وانصاف کے خلاف ہے۔
عذاب کے دائمی ہونے کی نفی پر عقلی دلیل
لکھتے ہیں: قرآن مجید اور احادیث سے ہمارا استدلال یہ ہے کہ جنت چونکہ خدا تعالیٰ کا انعام ہے۔ اس لئے وہ دائمی ہے اور انسان کے محدود اعمال کی غیرمحدود جزا خداتعالیٰ کی صفت رحم ہے۔ مگر جہنم دائمی نہیں ہے۔ کیونکہ انسان کے محدود برے اعمال کی سزا غیرمحدود ظلم ہوگی۔
عقلی دلیل کا جواب
یہ عقلی اعتراض اس انداز سے کرنا ابہام پیدا کرتا ہے۔ اس لئے کہ غیرمحدود سزا صرف کفار کو ملے گی۔ بقیہ وہ حضرات جن کے دل میں ذرہ برابر بھی ایمان ہوگا۔ وہ ضرور جنت میں داخل ہوں گے۔ البتہ کفار کے لئے یہ غیرمحدود سزا عدل وانصاف کے عین مطابق ہے۔ کیونکہ ان کا کفر پر تاحیات قائم رہنا اس بات کی کھلی دلیل ہے کہ اگر ان کو دنیا میں دائمی حیات بھی حاصل ہوتی تو یہ تب بھی کفر پر ہی قائم رہتے۔ اﷲ جل شانہ نے اس حقیقت کو اس آیت میں اس طرح بیان کیا ہے۔
’’ومن الذین اشرکوا یؤد احدہم لویعمّر الف سنۃ وماھو بمزحزحہ من العذاب ان یعمّر (بقرۃ:۹۶)‘‘ {مشرکین میں سے ہر ایک یہ چاہتا ہے کہ ایک ہزار برس تک کی عمر پائے۔ حالانکہ یہ اس قدر وعمر اس کو عذاب سے نہیں بچا سکتی ہے۔}
اس آیت میں واضح طور پر بتلا دیا گیا ہے کہ مشرکین اپنے کفر وشرک پر اس حد تک قائم ہیں کہ اب وہ کسی صورت میں بھی ایمان نہیں لائیں گے۔ کیونکہ جب ان کو عمر کا طویل حصہ ملا اور ہدایت کے لئے رسل اور انبیاء علیہم السلام آئے تو انہوں نے ہدایت قبول نہیں کی۔ اس طرح اگر ان کو ایک ہزار برس کی بھی عمر مل جائے تو بھی یہ ایمان لانے والے نہیں ہیں۔ کیونکہ ان کی نیت ہی