کفر وشرک پر قائم رہنے کی تھی۔ اس لئے اگر ان کو مژدہ بھی سنادیا جاتا کہ تم کو دنیا میں دائمی حیات حاصل ہوگئی تو بھی یہ کفر وشرک پر قائم رہتے۔ لیکن دنیا میں چونکہ کسی کو دائمی حیات حاصل نہیں ہوگی۔ یہ مشیت الٰہی کے خلاف ہے۔ اس لئے ان کی اسی نیت پر فیصلہ کیا جائے گا کہ ان کا کفر وشرک اور برے اعمال غیرمحدود مدت تک قائم رہتے اگر ان کو دائمی حیات حاصل ہوتی۔ لیکن دنیا میں ایسا ممکن نہیں ہے۔ اس لئے ان کے غیرمحدود کفر وشرک کی نیت کی بناء پر ان کو غیرمحدود دائمی عذاب ہوگا اور چونکہ اعمال کا مدار نیت پر ہی ہوتا ہے اور اعمال کا فیصلہ بھی نیت کے صحیح یا غلط ہونے پر ہی ہوتا ہے۔ جیسا کہ حدیث میں رسول کریمﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’انما الاعمال بالنیات (بخاری ج۱ ص۲)‘‘ {اعمال کا مدار نیتوں پر ہی ہوتا ہے۔}
اسی طرح اہل جنت کو جودائمی نجات ملے گی وہ بھی اہل ایمان کے ایمان پر غیرمحدود زمانے تک رہنے کی نیت پر ملے گی۔ کیونکہ اگر اہل ایمان کو دنیا میں دائمی حیات حاصل ہوتی تو وہ یقینا دائمی طور پر ایمان پر قائم رہتے۔ درمیان میں تیسرا گروہ ان حضرات کا ہے جو ایمان اور عمل صالح کے ساتھ گنہگار بھی ہوں گے۔ یہاں اﷲتعالیٰ اپنی رحمت کا معاملہ فرمائیں گے۔ معمولی سزا دے کر جنت میں داخل فرمائیں گے اور کسی کو بغیر سزا کے معاف فرمادیں گے۔ چنانچہ اﷲتعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ’’فیغفر لمن یشاء ویعذب من یشاء (البقرہ:۲۸۴)‘‘ {پس اﷲتعالیٰ جس کو چاہتے ہیں معاف فرماتے ہیں اور جس کو چاہتے ہیں سزا دیتے ہیں۔}
اس کے بعد صاحب مراسلہ نے اپنے مؤقف کی تائید میں حضرت ابن عباسؓ کی حدیث پیش کی۔
’’للرحمۃ خلقہم ولم یخلقہم للعذاب‘‘ {اﷲتعالیٰ نے انسانوں کو رحم کے لئے پیدا کیا ہے۔ عذاب کے لئے نہیں پیدا کیا۔}
اس روایت کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’دنیوی حکومتیں کسی کے جرم کے مطابق سزا دیتی ہیں اور جرم سے زائد سزا دیں تو وہ ظالم کہلاتی ہیں تو کیا خداتعالیٰ کی ہی حکومت اس قدر ظالم ہے کہ محدود اعمال کی غیرمحدود سزا دے عقل اس خیال کی سختی سے تردید کرتی ہے۔‘‘
آپ نے اس روایت سے جو استدلال کیا ہے وہ خود آپ کے نزدیک بھی مسلم نہیں ہے۔ کیونکہ ابن عباسؓ کی حدیث سے جو استدلال آپ نے کیا ہے وہ درست نہیں ہے۔ اس لئے کہ اس روایت سے مطلق عذاب کی نفی ہورہی ہے۔ حالانکہ وقتی اور محدود عذاب کے تو آپ بھی قائل ہیں۔ جس کو آپ نے اپنے مراسلہ میں روحانی اصلاح کے لئے ہسپتال کی حیثیت دی ہے تو