لئے عقلی دلائل کا سہارا لینا اسلام میں کفر والحاد کو دعوت دیتا ہے۔ اس لئے علماء حق نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ عقلی دلائل سے اسلامی احکام کی تائید کی جاسکتی ہے۔ لیکن احکام کو ثابت نہیں کیاجاسکتا۔
جہنم کے دائمی ہونے پر عقلی دلائل
عقلی دلائل سے اسلامی احکام کی تائید کی جاسکتی ہے۔ لیکن احکام کو ثابت نہیں کیاجاسکتا۔ بہرحال جب ہم اس مسئلہ پر بغرض تائید غور کرتے ہیں تو عقل سلیم ہمارے مؤقف کی تائید کرتی ہے اور یہ نتائج سامنے آتے ہیں کہ اگر جہنم کو اور عذاب کو دائمی تسلیم نہ کیا جائے اور یہ کہا جائے کہ محدود سزا پانے کے بعد تمام انسان جنت میں داخل ہوں گے تو اس خیال سے کفار کو اپنے کفر پر اور گنہگاروں کو اپنے گناہوں پر جرأت ہو جائے گی۔ اس طرح لوگوں میں کفر ومعصیت اور عام ہو جائے گی۔ اس لئے کہ یہ فطری قانون ہے کہ جب سزا میں تخفیف ہوتی ہے تو نافرمانی پر جرأت بڑھ جاتی ہے اور جہنم کے فنا ہونے کا مطلب یقینا سزا میں تخفیف ہے۔ اس کا عام مشاہدہ ہے۔ جب ملک کا حاکم جرائم یا بغاوت کی سزا کے نفاذ میں نرمی اختیار کرتا ہے تو جرائم کی کثرت بڑھ جاتی ہے اور قوم کے غدار لوگ بغاوت پر آمادہ ہو جاتے ہیں۔ پس یہی حالت اﷲتعالیٰ کے ان نافرمان بندوں کی ہے۔ جو کفر اختیار کرتے ہیں اور اپنے اختیار سے دیدہ ودانستہ معصیت کا ارتکاب کرتے ہیں اور علی الاعلان اس سے بغاوت کرتے ہیں۔ اگر اس حالت میں ان کو اس طرح نہ ڈرایا جائے کہ اگر تم اپنے کفر اور معصیت پر اسی طرح قائم رہے تو یاد رکھو ایک دن ہمیشہ کے لئے جہنم میں ڈال دئیے جاؤ گے اور پھر کسی صورت سے بھی جہنم سے خلاصی نہ ہوگی اور ہمیشہ کے لئے عذاب میں مبتلا رہو گے۔ الغرض کفار اور مشرکین کے لئے دائمی عذاب ان کے شرک وکفر جیسے بڑے گناہ کے عین مطابق ہے۔ اس لئے کہ عام اصول ہے کہ جرم جتنا بڑا ہوگا سزا اتنی بڑی ہوگی۔
دوسری دلیل یہ ہے اگر کفار کو بھی سزا پانے کے بعد جنت میں داخل کر دیاجائے گا تو اس طرح اہل جنت اور اہل کفر دونوں برابر ہو جائیں گے اور اس کی نفی تو خود اﷲتعالیٰ نے فرمائی ہے۔
’’أفنجعل المسلمین کالمجرمین مالکم کیف تحکمون (قلم:۳۵،۳۶)‘‘ {پس کیا ہم فرمانبردار اور نافرمان دونوں کو برابر کر دیں گے۔ کیا ہوا تمہیں تم کیا خراب فیصلہ کرتے ہو۔}
اگر اس آیت پر غور کیا جائے تو یہی آیت کافی ہے۔ اس لئے کہ ایک مسلم ہے اور ایک