فریق کی بات تسلیم کی جائے۔ اس کا فیصلہ خود آپ نے کیا ہے کہ نفس مسئلہ کے متعلق نقلی وعقلی دلائل پیش نظر رکھ کر فیصلہ کرنا چاہئے کہ مسئلہ کی جوشق نقلی وعقلی دلائل کی روشنی میں راحج ہو اسی کو اختیار کر کے اسی پر اعتقاد قائم کیا جائے اور اسی کو معمول بہ بنایا جائے۔ چنانچہ اس اصول کی بنیاد پر ہم نے اس مسئلہ کی ترجیح اور تاکید کے لئے قرآن وحدیث سے نقلی دلائل پیش کئے ہیں اور ان دلائل کے پیش کرنے میں ہم نے اس کا اہتمام کیا ہے کہ وہ دلائل پیش کئے ہیں۔ جو خود آپ کے نزدیک بھی مسلم ہیں۔ لیکن پھر بھی ہمیں خدشہ ہے کہ آپ جس مذہب کے اسٹیج سے لکھ رہے ہیں اس دین مرزائیت کی بنیاد ہی تاویلات فاسدہ پر قائم ہے۔ اس لئے ممکن ہے یہ دلائل بھی آپ کے لئے قابل قبول نہ ہوں۔
عقلی دلائل کے لئے معیار کیا ہونا چاہئے
آپ نے لکھا ہے کہ علمی مسائل میں عقلی دلائل بھی ہونا چاہئیں۔ ظاہر ہے کہ اس سے کسی کو انکار نہیں۔ لیکن عقلی دلائل کے لئے ضروری ہے کہ پہلے ان کی حیثیت کو سمجھا جائے۔ اس لئے کہ اسلام میں فتنہ کا دروازہ اس وقت سے کھلا جب سے لوگوں نے اسلامی احکام اور اعتقاد کو خالص عقلی انداز میں سمجھنا شروع کیا اور یہ غلو یہاں تک بڑھتا گیا کہ یہ لوگ عقل کے پرستار بن گئے۔ جس کا نتیجہ یہ ظاہر ہوا کہ انہوں نے عقل کو معیار کل اور احکام کے لئے اثبات کا ذریعہ بنایا۔ اگر بنی نوع انسان کی ہدایت کے لئے عقل انسانی ہی کافی ہوتی تو پھر انبیاء اور رسولوں اور وحی الٰہی کی ضرورت باقی نہ رہتی۔ لیکن یہ امر واقعہ ہے کہ عقل جہاں اپنی تمام صلاحیتوں کے ساتھ ناکام ہوتی ہے وہاں سے وحی الٰہی بنی نوع انسان کی رہنمائی کرتی ہے۔اسلام میں عقل سلیم کا مقام
لیکن اسلام چونکہ ایک عالمگیر اور فطری مذہب ہے۔ اس لئے اس نے انسانی فطری تقاضوں کو دبایا نہیں بلکہ ان کی اصلاح کر کے ان کی ہمت افزائی کی ہے۔ اسی بنیاد پر اسلام نے انسانی جوہر عقل سلیم کو عضو معطل بناکر نہیں چھوڑا جس طرح دیگر مذاہب عالم نے عقل کے ساتھ ناانصافی کی۔ اسلام نے عقل صلاحیتوں کو جائز مقام دیا اور یہ تعلیم دی کہ عقل انسانی مذہبی اعتقاد میں مؤید ثابت ہوسکتی ہے۔ لیکن مثبت نہیں ہوسکتی ہے۔
یہی حال صاحب مراسلہ کا بھی ہے کہ اعتقادی مسئلہ کو عقلی دلائل کی روشنی میں سمجھنا چاہتے ہیں۔ حالانکہ جب کوئی بات قرآن وحدیث سے ثابت ہو جائے تو پھر اس کے اثبات کے