النبی سے جو اقتباس نقل کیا ہے۔ وہ صرف اس مقصد کے پیش نظر کیا ہے کہ آپ نے جن کو اپنے مؤقف کی تائید میں پیش کیا ہے وہ خود آپ کے مؤقف کے خلاف ہیں اور ان کا مسلک جہنم اور عذاب کے دائمی ہونے میں جمہور کے مسلک کے مطابق ہے۔ جیسا کہ صاحب معالم التنزیل وروح المعانی اور دیگر مشاہیرامت نے اجماع نقل کیا ہے۔ چنانچہ امام نوویؒ نے مسلم کی شرح ص۴۰۱ پر لکھا ہے۔جہنم کے دائمی ہونے پر امت کا اجماع
’’ہذا مختصر جامع لمذہب اہل الحق فی ہذہ المسئلۃ وقد تظاہرت ادلۃ الکتاب والسنۃ واجماع من یعتقد بہ علی ہذہ القاعدۃ وتواترت بذلک نصوص بتحصل العلم القطعی فاذا تقررت ہذہ القاعدۃ حمل علیہا جمیع ماورد من احادیث الباب وغیرہا فاذ ورد حدیث فی ظاہرہ مخالفۃ لہا وجب تاویلہ علیہا لیجمع بین نصوص الشرع‘‘ اہل حق کے مذہب کا اس مسئلہ میں یعنی (جہنم اور عذاب کے دائمی ہونے میں) اور اس میں کتاب وسنت اور اجماع کے دلائل ظاہر ہوچکے ہیں۔ اس شخص کے لئے جو اس اصول پر اعتقاد رکھے جو اوپر امام نووی نے عذاب جہنم کے کفار کے لئے دائمی ہوتے ہیں۔ بیان کیا ہے اور اس اعتقاد پر نص قطعی تواتر کے درجہ میں موجود ہیں۔ جب یہ بات واضح ہو گئی تو اب اس قاعدہ پر تمام احادیث باب کو اور دیگر احادیث کو اسی پر محمول کیا جائے گا اور جب کوئی حدیث اس مسئلہ کے بظاہر مخالف پیش آئے تو اس میں تاویل کرنا واجب ہو جاتی ہے۔ تاکہ تمام نصوص شرعیہ کے درمیان تطبیق ہو جائے۔
امام نووی، مسلم کے شارح اور فن حدیث میں اپنے دور کے امام وقت تھے۔ ان کا قول امور شرعیہ میں حجت مانا جانا ہے۔ اس لئے ان کے اس فیصلہ کے بعد یہ کہنا کہ چند علماء کا مسئلہ ہے۔ حقائق سے انحراف ہے جو کسی بھی سلیم الطبع انسان کے لئے مناسب نہیں ہے۔ اس کے بعد صاحب مراسلہ نے یہ بھی لکھا ہے کہ: ’’یہ خالص علمی مسئلہ ہے اور علمی مسائل میں اجتہاد کا راستہ بند نہیں کیا جاسکتا ہے۔ چنانچہ کئی مسائل میں علماء امت کا اختلاف رہا ہے اور اب بھی پایا جاتا ہے۔ اس لئے نفس مسئلہ کے متعلق عقلی ونقلی دلائل کو پیش کرنا چاہئے تاکہ اصل حقیقت واضح ہو سکے۔‘‘
اس سلسلہ میں یہ بات کہنا کہ یہ خالص علمی مسئلہ ہے۔ اس سے کس ذی علم کو انکار ہوگا۔ اصل بات قابل غور یہ ہے کہ جب علمی مسائل میں علماء کے درمیان نزاع پیدا ہو تو کس