یجیبنّہم اربعین عاماً ثم یقول انکم ماکثون ثم یدعون ربہم فیقولون ربنا اخرجنا منہا فان عدنا فانا ظالمون فلا یجیبہم ثم یقول اخسوأ فیہا ولا تکلمون ثم ییائس القوم فما ہو الا الزفیر والشہیق تشبہ اصواتہم اصوات الحمیر ولہا شہیق وآخرہا زفیر (الترغیب والترہیب ج۴ ص۳۹۲، حدیث نمبر۵۴۳۲)‘‘ {حضرت عبداﷲ بن عمروؓ سے روایت ہے کہ فرمایا اہل جہنم مالک (داروغہ جہنم) کو پکاریں گے۔ پس وہ ان کو چالیس سال تک جواب نہ دے گا۔ پھر وہ کہے گا کہ بیشک تم یہیں رہو گے۔ پھر وہ اپنے پروردگار کو پکاریں گے۔ اے ہمارے رب تو ہم کو اس سے نکال۔ پس اگر اس کے بعد ہم پھر لوٹے تو پس ہم ظالم ہوں گے پس ان کو کوئی جواب نہیں دیا جائے گا۔ پھر اﷲتعالیٰ فرمائیں گے۔ پڑے رہو اس میں ذلت کے ساتھ اور مجھ سے بات نہ کرو پھر وہ قوم مایوس ہو جائے گی۔ پس ان کے لئے کچھ نہ ہوگا۔ سوائے اس کے وہ چیخیں گے اور چلّائیں گے اور ان کی آواز گدھے کی آواز کے مانند ہوگی۔ اس کی آواز شہیق اور آخری آواز زفیر ہوتی ہے۔}
ہم نے یہاں پانچ حدیثیں پیش کی ہیں جو دوام کے معنی کے لئے نص صریح ہیں۔ حدیث نمبر۳ میں لفظوں کے اعتبار سے جو تاکید ہے وہ ایسی ہے۔ اس میں کسی قسم کے شک وشبہ کی گنجائش نہیں ہے۔ پہلا لفظ کلاہما دوئم خلود سوئم ابداً یہ تینوں الفاظ تاکید کے لئے استعمال ہوئے ہیں اور جب خالدین کے ساتھ ابداً کا لفظ استعمال ہو تو دوام کے معنی کی تعیین ہو جاتی ہے۔ اس طرح معنوی اعتبار سے بھی تاکید ہے۔ جب کہ موت کو دونوں فریقوں کے سامنے ذبح کر دیا جائے گا۔ تو اب ہر فریق یہ یقین کرے گا۔ پس ہمارا ٹھکانہ یہی ہے۔ اس کے بعد نکلنا نہ ہوگا۔ طوالت کے خوف سے ہم نے صرف پانچ احادیث پر ہی اکتفا کیا ہے۔ ورنہ ہمارے مؤقف کی تائید میں اور بھی احادیث ہیں جو کہ کتب احادیث کے ذخیرہ میں دیکھی جاسکتی ہے۔
مغالطہ کی بدترین مثال
صاحب مراسلہ نے اپنے دوسرے مراسلہ میں یہ بھی ادّعا کیا ہے کہ یہ مسئلہ اجماعی نہیں ہے لکھتے ہیں۔
آپ نے اس پر زور دیاہے کہ عذاب جہنم دائمی ہونے پر امت کا اجماع ہے۔ اس لئے اس کے خلاف نقلی وعقلی دلائل پیش کرنا درست نہیں ہیں۔ حالانکہ بعض مفسرین کا اس عقیدہ کو بیان کردینا اجماع نہیں کہلا سکتا۔ یہ مسئلہ ایک خالص علمی مسئلہ ہے اور علمی مسائل میں کبھی اجتہاد کا