ماکثون عدد کل حصاۃ لحزنوا لکن جعل لہم الأبد (رواہ الطبرانی کبیر ج۱۰ ص۱۸۰، حدیث نمبر۱۰۳۸۴)‘‘ {حضرت عبداﷲ بن مسعودؓ سے منقول ہے کہ رسول اﷲﷺ نے فرمایا کہ اگر اہل جہنم سے کہا جائے کہ تم دنیا میں ان کنکریوں کی تعداد کے بقدر رہو گے تو وہ خوش ہوں گے اور اگر اہل جنت سے کہا جائے کہ تم ان کنکریوں کی تعداد کے بقدر رہو گے تو وہ غمزدہ ہو جائیں گے۔ لیکن سب کے لئے ہمیشہ اپنی اپنی جگہ میں رہنا ہوگا۔}
کافر اور مشرکین کے لئے جہنم میں محدود وقت کی نفی
اس حدیث سے جہاں دونوں فریقین کے لئے جنت اور دوزخ میں دائمی رہنا ثابت ہے۔ وہاں اہل جہنم کے لئے محدود یا معین مدت کی بھی نفی ہے۔ اس لئے رسول اقدسﷺ نے کنکریوں کی مثال دے کر یہ ثابت کیا ہے کہ اہل جنت اور اہل جہنم کے لئے جہنم وقتی یا عارضی یا محدود یا متعین وقت کے لئے نہیں ہے بلکہ دونوں فریقین دائمی طور پر رہیں گے۔ جس طرح اہل جنت کبھی جنت سے نہیں نکالیں جائیں گے اسی طرح اہل جہنم کافر ومشرکین بھی کبھی جہنم سے نہیں نکالیں جائیں گے۔ اس نص صریح کے مقابلہ پر صاحب مراسلہ کی دلیل ملاحظہ ہو۔ اپنے دوسرے مراسلہ میں لکھتے ہیں۔
ہٹ دھرمی کی مثال
لیکن یہ امر قابل غور ہے کہ خود قرآن مجید میں اﷲتعالیٰ نے جہنمیوں کے متعلق فرمایا ہے: ’’لٰبثین فیہا احقابا (النبا:۲۳)‘‘ {یعنی برسوں جہنم میں رہتے چلے جائیں گے۔}
احقاب جمع حقب کی ہے اور اس کے معنی لغت کی رو سے یہ ہیں ثمانون سنۃ یعنی ۸۰سال مائتہ عشرون سنۃ یعنی ۱۲۰سال وقیل الستون یعنی ۶۰سال ایک صدی یا کئی صدیاں ان معانی کی رو سے آیت کے معنی یہ بنتے ہیں کہ جہنمی صدیوں یا کئی سال جہنم میں رہتے چلے جائیں گے جو بھی معنی کئے جائیں معین اور محدود عرصہ بنتا ہے۔
صاحب مراسلہ کے اس منطقی اور منفی انداز سے ظاہر ہوتا ہے کہ غلط تاویل کرنے میں قرآن پاک کی عظمت کا بھی لحاظ نہیں کرتے اور اپنے خود ساختہ عقیدے کے اثبات کے لئے کلام الٰہی میں تاویل کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ حالانکہ اجماعی طور پر یہ عالم اسلام کا عقیدہ رہا ہے کہ محدود عذاب صرف گنہگار مؤمنوں کے لئے ہوگا۔
۵… ’’وعن عبداﷲ بن عمرو قال ان اہل النارید عون ما لکا فلا