تاکید کے لئے خالداً ابداً جیسے الفاظ لائے گئے۔ تاکہ اس میں کوئی تاویل نہ کی جا سکے اور یہ بات یقینی ہے۔ جب مکین کے لئے دوام یقینی ہے تو مکان کا دائمی ہونا بھی ضروری ہے۔
موت کے لئے بھی فنا ہے
۳… ’’عن ابی ہریرۃؓ قال، قال رسول اﷲﷺ یؤتیٰ بالموت یوم القیامۃ فیوقف علی الصراط فیقال یا اہل الجنۃ فیطلعون نخائفین وجلین ان یخرجوا من مکانہم الذی ہم فیہ ثم یقال یا اہل النار فیطلعون مستبشرین فرحین ان یخرجوا من مکانہم الذی ہم فیہ فیقال ہل تعرفون ہذا قالوا نعم ہذا الموت قال فیؤمربذبح فیذبح علی الصراط ثم یقال للفریقین کلاہما خلود فیما تجدون لا یموت فیہا ابداً (سنن ابن ماجہ ص۳۲۱)‘‘ {حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں رسول اﷲﷺ نے ارشاد فرمایا کہ قیامت کے دن موت کو لایا جائے گا اور اس کو پل صراط پر کھڑا کیا جائے گا۔ پس اہل جنت سے خطاب کیا جائے گا۔ پس وہ ڈرتے اور لرزتے ہوئے دیکھیں گے کہ کہیں ہم کو جنت سے نکالا تو نہیں جارہا۔ پھر اہل جہنم سے خطاب کیا جائے گا۔ وہ اس کو بشارت سمجھ کر جہنم سے نکلیں گے۔ خوشی سے دیکھیں گے۔ پس ان سب سے کہا جائے گا کہ تم اس کو جانتے ہو جواب میں کہیں گے ہاں یہ موت ہے۔ آنحضرتﷺ نے ارشاد فرمایا کہ پھر موت کے لئے حکم دیا جائے گا کہ اس کو ذبح کر دیا جائے اور دونوں فریق سے کہا جائے گا کہ تم سب جس حالت میں ہو اسی میں ہمیشہ رہو گے۔ اب تم کو کبھی موت نہ آئے گی۔}
اس کے علاوہ یہی روایت مجمع الزوائد ومنبع العوائد میں ص۳۹۶۱ پر باب الخلود لا ہل النار فی النار واہل الجنۃ فی الجنۃ میں حضرت انسؓ سے منقول ہے۔ اس حدیث کے متعلق نور الدین علی بن ابی بکر الہیثمی نے لکھا ہے: ’’رواہ ابویعلیٰ والطبرانی فی الاوسط بنحوہ والبزار ورجالہم رجال الصحیح‘‘ اس روایت سے ابولعلی اور طبرانی نے اوسط میں اسی طرح اور بزارنے نقل کیا ہے اور اس روایت کے سب رواۃ ثقہ اور صحیح ہیں۔
کافر اہل جہنم کے لئے عذاب دائمی ہونے پر دلیل
۴… ’’عن عبداﷲ بن مسعودؓ قال قال رسول اﷲﷺ لوقیل لاہل النار انکم ما کثون عدد کل حصاۃ فی الدنیا لفرحوا بہا ولو قیل لاہل الجنۃ انکم