معنی میں ہے اور دوزخ سے عدم خلاص کے لئے مفید ہے اور بخارجین میں، باخبر کی تاکید اور نفی کی تاکید کا کام دے رہی ہے۔
اس آیت کی تفسیر میں اتنے بڑے عظیم المرتبت مفسرین کے فیصلہ کے بعد صاحب مراسلہ کی تاویل کی کوئی حیثیت باقی نہیں رہتی۔ اس انداز سے دوسری آیت میں ارادے کی قید لگائی ہے اور اس آیت کو بھی اپنے مؤقف کی تائید میں پیش کیا ہے کہ جب بھی اہل جہنم اپنے ارادے سے جہنم سے نکلنا چاہیں گے تو پھر اس میں لوٹا دئیے جائیں گے اور پھر اﷲتعالیٰ اپنے ارادے سے ان کو جہنم سے نکالیں گے۔ یہ تفسیر خود ساختہ ہے۔ کلام الٰہی کو اپنے منشاء کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کی ہے اور آیت جو کہ مطلق ہے اس کو ارادے کی قید سے مقید کرنا اصولی غلطی ہے۔ جب کہ مطلق کو مقید کرنا خبر آحاد سے بھی جائز نہیں ہے اوراس انداز سے آیت کی تفسیر بیان کرنا تحریف معنوی کے مرادف ہے۔ اس آیت کے سیاق وسباق پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس آیت کے مصداق وہ لوگ ہیں جو آخرت کے دن کو بھلا کر دنیا کے عیش ونشاط میں غرقاب ہو کر دنیا کی زندگی کو آخرت پر ترجیح دیتے ہیں۔ اسی بنیاد پر جمہور مفسرین نے آیت سے خلود فی النار مراد لیا ہے اور یہی اصل منشاء الٰہی ہے۔
ہم نے اپنے پہلے جواب میں صاحب مراسلہ کی پیش کردہ غریب حدیث پر مکمل جرح وتنقید کی تھی۔ اس کے جواب الجواب پر ربوہ کے عبدالحمید صاحب نے لکھا۔
اس سوال کے جواب میں اثباتی رنگ میں قرآن مجید کی ایک آیت یا کوئی غریب حدیث بھی پیش نہیں کی گئی ہے۔ تاکہ دیکھا جائے کہ عذاب جہنم کے دائمی ہونے کا استدلال کس سے کیا جاتا ہے۔
اہل حق کا مسلک
ہم نے اس چیلنج کے جواب میں ۲۱آیات اور ۵صحیح احادیث پیش کی تھیں اور ساتھ ہی ہم نے اس کی دعوت دی تھی کہ حق کی طرفداری اور حق پسندی اسی میں ہے کہ اب آپ اس کو قبول کر لیں۔ لیکن ہماری یہ آرزوئیں پوری نہ ہوئیں اور ربوہ سے ہمارے جواب الجواب کا جواب نہیں آیا۔ جس کا مطلب یہ تھا کہ حق واضح ہوگیا۔ لیکن ہٹ دھرمی کی وجہ سے اس کو قبول نہیں کیاگیا۔
اہل حق علماء کا یہ شیوہ نہیں کہ وہ غریب حدیث یا تاویل کا سہارا لے کر اپنے مسلک کی بنیاد اس پر قائم کریں۔ بلکہ علماء حق نے ہمیشہ صحیح روایات اور واضح آیات ہی پر اپنے مسلک کی بنیاد