’’وماہم بخارجین منہا (البقرہ:۱۶۷)‘‘ {وہ (دوزخی) اس (دوزخ کی آگ) سے ہر گز نہیں نکل سکیں گے۔}
اس آیت سے دھوکہ نہیں کھانا چاہئے۔ کیونکہ اوپر کی متعدد آیات سے مضمون واضح ہے۔ اس آیت میں صرف یہ فرمایا ہے کہ دوزخ میں سے کوئی اپنے زور سے نہیں نکل سکے گا۔ ہاں اﷲ تعالیٰ کے فضل سے وہ ایک دن نکال دئیے جائیں گے۔ چنانچہ ایک دوسری آیت سے یہ بات ثابت ہے۔
’’کلما ارادو ان یخرجوا منہا اعیدوا فیہا (سجدۃ:۲۰)‘‘ {جب کبھی وہ اس (دوزخ) سے نکلنے کا ارادہ کریں گے تو پھر اسی کی طرف لوٹا دئیے جائیں گے۔}
پس یہ ثابت ہوا کہ آیت میں مراد اپنی جدوجہد اور کوشش سے جہنم سے نکلنا ہے اور وہ اس طرح نہیں نکل سکیں گے۔ صرف خدا کا فضل ہی انہیں ایک دن نکالے گا۔
قرآن پاک شبہ سے پاک ہے
موصوف نے عجیب منطقی انداز سے پھر سے دعوے کو اس آیت سے ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔ حیرت ہے کہ آیت اپنے حکم میں نص قطعی ہے۔ اس میں کسی قسم کے شبہ کی گنجائش نہیں ہے۔ لیکن پھر بھی خود ہی اس میں شبہ پیدا کیا اور خود ہی اس کی تاویل کر کے اس کا جواب دیا۔ یہ انداز قرآن کے شایان شان نہیں ہے۔ اگر اس انداز سے لوگ قرآن پاک کی تفسیر لکھنے لگیں تو پھر قرآن پاک بازیچہ اطفال بن کر رہ جائے گا۔ اس لئے ضروری ہے کہ آیت کو اپنے اصلی مفہوم میں رکھا جائے اور اس میں کسی قسم کی تاویل یا ارادے کی قید نہ لگائی جائے۔
آیت کے متعلق کبار مفسرین کا فیصلہ
آیت کا صحیح مفہوم یہ ہے کہ یہ آیت کافر اور مشرکین کے حق میں نازل ہوئی ہے کہ یہ لوگ کبھی بھی دوزخ سے نہیں نکالے جائیں گے۔ اس کی تائید میں علامہ قرطبی نے اپنی تفسیر میں لکھا ہے۔
’’دلیل علی خلود الکفار فیہا وانہم لا یخرجون‘‘ یہ آیت دلیل ہے کفار کے ہمیشہ جہنم میں رہنے پر اور وہ کبھی بھی اس سے نہیں نکلیں گے۔
تفسیر مدارک میں ہے: ’’بل ہم فیہا دائمون‘‘ بلکہ وہ ہمیشہ جہنم میں رہیں گے۔
تفسیر روح المعانی میں ہے: ’’افادۃ للمبالغۃ فی الخلود والاقناط عن الخلاص وزیادۃ الباء لتاکید النفی‘‘ یہ آیت کفار کے خلود فی النار کے لئے مبالغہ کے